سمندروں سے کبھی دشت سے گزرنے میں
سمندروں سے کبھی دشت سے گزرنے میں
ہوئے تمام سفر زندگی کا کرنے میں
بس اس نے آ کے ذرا آئنے کو دیکھا تھا
ذرا سی دیر لگی روشنی بکھرنے میں
بچھڑنا شاخ سے کل بھی ہے اور آج بھی ہے
تو آندھیوں سے بھلا کیا رکھا ہے ڈرنے میں
میں بے سبب ہی مخاطب ہوا دریچے سے
نہا رہا تھا وہ یادوں کے ایک جھرنے میں
بس ایک پل کی تمنائے وصل کی خاطر
تمام عمر لگا دی گئی سنورنے میں
یہ اور بات جنوں کو سکوں ملے ملے نہ ملے
طبیب لگ تو گئے ایک زخم بھرنے میں
نہ جانے سارے پرندے کہاں ہوئے غائب
مزہ رہا ہی نہیں سائے میں ٹھہرنے میں