کوئی چراغ نہ جگنو سفر میں رکھا گیا
کوئی چراغ نہ جگنو سفر میں رکھا گیا
دل و دماغ کو جب اپنے گھر میں رکھا گیا
کھرچ کھرچ کے لکھا نام ایک خوشبو کا
کسی کی یاد کو یوں بھی شجر میں رکھا گیا
جو ایک لمحے کو چمکا تھا طور ہستی پر
وہی تو عکس ہمیشہ نظر میں رکھا گیا
مری نگاہ نے دیکھے نہیں کھنڈر اب تک
مجھے تو گاؤں سے پہلے نگر میں رکھا گیا
مجھے ہی فکر رہی اک انا کے مٹنے کی
کہ اک جنون سا میرے ہی سر میں رکھا گیا
تراشتی ہی رہیں اس کی انگلیاں مجھ کو
مرا وجود کسی کے ہنر میں رکھا گیا
افق پہ پھول وفاؤں کا جب ہوا روشن
سسکتی شب کے لہو کو سحر میں رکھا گیا