وفا نقوی کی غزل

    یادوں سے مہکتی ہوئی اس رات میں کیا ہے

    یادوں سے مہکتی ہوئی اس رات میں کیا ہے یہ راز کھلا آج کہ جذبات میں کیا ہے اک تجھ سے ہی امید لگا رکھی ہے ورنہ یہ مجھ کو خبر ہے کہ مری ذات میں کیا ہے یہ کہہ کے پرندوں نے بھری آج اڑانیں شہروں کی طرف چلتے ہیں دیہات میں کیا ہے یوں غور سے ہاتھوں کی لکیریں نہ پڑھا کر بگڑیں گے سنور جائیں ...

    مزید پڑھیے

    کبھی جو دھوپ ہمارے مکاں میں آ جائے

    کبھی جو دھوپ ہمارے مکاں میں آ جائے تو سایہ دار شجر بھی اماں میں آ جائے میں شاہزادہ نہیں تو فقیر ہی بہتر کہیں تو ذکر مرا داستاں میں آ جائے میں تیرا نام سلیقے سے تو پکاروں مگر خدا نخواستہ لکنت زباں میں آ جائے کسے ڈبونا ہے اور کس کو پار کرنا ہے شعور اتنا تو آب رواں میں آ جائے میں ...

    مزید پڑھیے

    موسم ہو کوئی یاد کے خیمے نہیں اٹھتے

    موسم ہو کوئی یاد کے خیمے نہیں اٹھتے صحرا سے ترے چاہنے والے نہیں اٹھتے ہیں رقص کے عالم میں سلگتے ہوئے چہرے ایسے تو کسی گھر سے جنازے نہیں اٹھتے اک پیاس نے کیسا یہ مجھے توڑ دیا ہے ہاتھوں سے مرے آج بھی کوزے نہیں اٹھتے سورج کے طمانچے سے فلک جاگ گیا ہے بستر سے مگر پھر بھی ستارے نہیں ...

    مزید پڑھیے

    تودۂ خاک بدن آب رواں خوب ہوا

    تودۂ خاک بدن آب رواں خوب ہوا اب کے برسات میں مٹی کا زیاں خوب ہوا ایسا محسوس ہوا تو نہیں راضی مجھ سے بے یقینی کا مجھے تجھ پہ گماں خوب ہوا خوشبوئے عشق اڑی لے کے پروں پر تتلی جس کو چاہا تھا چھپانا وہ عیاں خوب ہوا کوئی جلتا ہوا منظر تو نہیں تھا لیکن ہاں مگر رات سنا ہے کہ دھواں خوب ...

    مزید پڑھیے

    میں اپنی ذات کی تفسیر کرنے والا کون

    میں اپنی ذات کی تفسیر کرنے والا کون میں ایک خواب ہوں تعبیر کرنے والا کون لکھی ہوئی ہے جو دل کی زباں میں دھڑکن پر میں اس کتاب کو تحریر کرنے والا کون ابھی تو قید سے نکلا ہوں ان نگاہوں کی میں پھر خیال کو زنجیر کرنے والا کون میں اپنے آپ کو جیتوں یہی مناسب ہے میں ممکنات کو تسخیر ...

    مزید پڑھیے

    دریائے تیرگی میں بکھرنا پڑا مجھے

    دریائے تیرگی میں بکھرنا پڑا مجھے سورج کے ساتھ ساتھ اترنا پڑا مجھے دو چار دن نگاہ کا مرکز رہا کوئی پھر فاصلوں کا فیصلہ کرنا پڑا مجھے کیا جانے کس مزاج کے کتنے حبیب تھے اپنی ہی آستین سے ڈرنا پڑا مجھے آنکھوں سے عمر بھر نہ ملاقات ہو سکی بیکار آئنے میں سنورنا پڑا مجھے اک زندگی کو ...

    مزید پڑھیے

    کچھ لوگ تو اتنی بھی مروت نہیں کرتے

    کچھ لوگ تو اتنی بھی مروت نہیں کرتے ملنے کی کبھی خود سے بھی زحمت نہیں کرتے اس بار تو رستے بھی مجھے روک رہے ہیں دیوار و در و بام ہی الفت نہیں کرتے بازار میں اب کون خریدار ہے اپنا اتنی بھی زیادہ ابھی قیمت نہیں کرتے کیا ہوگا سر شام جو ہم ہوں گے نہ گھر میں یہ سوچ کے ہم شہر سے ہجرت ...

    مزید پڑھیے

    یہ ٹھیک ہے وہ ہم کو میسر نہیں ہوا

    یہ ٹھیک ہے وہ ہم کو میسر نہیں ہوا لیکن کہاں کہاں وہ منور نہیں ہوا لوٹا جو شام کو تو کوئی منتظر نہ تھا اس بار بے قرار مرا گھر نہیں ہوا کیا جانے کب اترنے لگے وہ دماغ پر کوئی جنوں کا وقت مقرر نہیں ہوا سب جیتنے کی ضد پہ یہاں ہارنے لگے صدیوں سے کوئی شخص سکندر نہیں ہوا بازو تو کٹ کے ...

    مزید پڑھیے

    چراغ جب سے مرے تیرگی سے ہار گئے

    چراغ جب سے مرے تیرگی سے ہار گئے ہوا سے ہاتھ ملانے کو سارے یار گئے ہر ایک بار سفر میرا مختصر کیوں تھا سفینے مجھ کو ہی ساحل پہ کیوں اتار گئے تری سرائے میں ساماں کہاں سکون کا تھا کسی طرح سے مسافر بھی شب گزار گئے میں جن کو سائے میں رکھتا تھا تپتے صحرا میں غضب ہے لوگ وہی مجھ پہ سنگ ...

    مزید پڑھیے

    غروب ہوتے ہوئے سورجوں کے پاس رہے

    غروب ہوتے ہوئے سورجوں کے پاس رہے اداس شام کی مانند ہم اداس رہے کھنڈر سا ایک مکاں تاکتا ہے رستوں کو نہ جانے آج کہاں اس کے غم شناس رہے بہار آئی تو سج دھج کے ہو گئے تیار درخت صرف خزاؤں میں بے لباس رہے یہ کہہ کے ہو گئے تھوڑے سے بے وفا ہم بھی ہمیشہ کون محبت میں دیوداس رہے مرے خیال ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 4