کیا جانے کس خیال میں کس راستے میں ہوں
کیا جانے کس خیال میں کس راستے میں ہوں
شاید میں تیرے بعد کسی مسئلے میں ہوں
وہ بھی گھرا ہوا ہے زمانے کی بھیڑ میں
میں بھی اسی جہاں سے ابھی رابطے میں ہوں
تو مسکرا کے آج مجھے کر رہا ہے یاد
یعنی میں تیرے ساتھ ترے آئنے میں ہوں
صحرا میں تیز دھوپ کا احساس ہی نہیں
باقی ہے ایک پیڑ ابھی آسرے میں ہوں
کیسے کسی فرات سے ہو دوستی مری
میں تشنہ لب حسین ترے قافلے میں ہوں