سلیمان جاذب کی غزل

    مٹا کر پھر بنایا جا رہا ہے

    مٹا کر پھر بنایا جا رہا ہے ہمیں کوزہ بتایا جا رہا ہے وہی کچھ تو کریں گے اپنے بچے انہیں جو کچھ سکھایا جا رہا ہے وہی پانی پہ لکھتے جا رہے ہیں ہمیں جو کچھ پڑھایا جا رہا ہے ہتھیلی کی لکیریں ہیں کہ جن میں کوئی دریا بہایا جا رہا ہے ہمیں ڈرنا نہیں آتا ہے جاذبؔ ہمیں پھر بھی ڈرایا جا ...

    مزید پڑھیے

    ہمارے ساتھ ماضی کے کئی قصے نکل آئے

    ہمارے ساتھ ماضی کے کئی قصے نکل آئے بہت سے دوست دشمن مارنے مرنے نکل آئے پلٹتا دیکھ کر منزل نے یوں آواز دی ہم کو پرانے راستوں میں سے نئے رستے نکل آئے کیا تھا صاف ہم نے راستہ اشجار کٹوا کر کہاں سے روکنے کو راستہ پتے نکل آئے ہماری نیند سے جب واپسی ممکن ہوئی یارو کھلا ہم پر کہ ہم تو ...

    مزید پڑھیے

    حقیقت بھی لگنے لگی ہے کہانی

    حقیقت بھی لگنے لگی ہے کہانی مجھے کھا گئی ہے مری خوش بیانی نہیں یاد مجھ سے ملا تھا کبھی وہ وگرنہ اسے یاد ہے ہر کہانی کوئی یار بیری نہ اپنا اگر ہو تو یہ زندگی ہے فقط رائیگانی بس اک کال پر ہی چلے آئے ہو تم نوازش کرم شکریہ مہربانی یہاں دور و نزدیک شہر بتاں ہے کسی کو نہیں دل کی حالت ...

    مزید پڑھیے

    ہونٹوں پہ جو تیرے ہے یہ مسکان مری جان

    ہونٹوں پہ جو تیرے ہے یہ مسکان مری جان لے جائے گی اک روز مری جان مری جان سب ہوش گنوا بیٹھے ترے چاہنے والے اس بات پہ ہونا نہیں حیران مری جان اپنوں سے کبھی ترک تعلق نہیں کرتے اپنوں کو نہیں کرتے پریشان مری جان اس ہنسنے ہنسانے سے نہیں جائے گا کچھ بھی اس میں تو نہیں کوئی بھی نقصان ...

    مزید پڑھیے

    احوال دل زار سنایا نہیں جاتا

    احوال دل زار سنایا نہیں جاتا جو راز عیاں ہو وہ بتایا نہیں جاتا اپنا تو دل زار ہے دانائی سے خالی نادان سے نادان منایا نہیں جاتا تم ہی یہ بتاؤ میں بھلاؤں تمہیں کیسے اس دل سے کوئی نقش مٹایا نہیں جاتا سر پھوڑنا مشکل نہیں ہوتا ہے جنوں میں دیوار سے عاشق کو لگایا نہیں جاتا تعبیر ملے ...

    مزید پڑھیے

    برسوں کا شناسا بھی شناسا نہیں لگتا

    برسوں کا شناسا بھی شناسا نہیں لگتا کچھ بھی دم ہجراں مجھے اچھا نہیں لگتا کر لوں میں یقیں کیسے کہ بدلہ نہیں کچھ بھی لہجہ ہی اگر آپ کا لہجہ نہیں لگتا اک تیرے نہ ہونے سے ہوا حال یہ دل کا بستی میں کوئی شخص بھی اپنا نہیں لگتا کاغذ سے وہ مانوس سی خوشبو نہیں آئی یہ خط بھی ترے ہاتھ کا ...

    مزید پڑھیے

    الوداع اس طرح کہا میں نے

    الوداع اس طرح کہا میں نے خود سے خود کو جدا کیا میں نے ماننا دل کا فیصلہ ہے اب کر لیا ہے یہ فیصلہ میں نے مشکلوں سے جسے قریب کیا عجلتوں میں گنوا دیا میں نے اتنے نزدیک سے اسے دیکھا درمیاں رکھ کے فاصلہ میں نے ایک چپ کام کر گئی جاذبؔ جیسے سب کچھ ہی کہہ دیا میں نے

    مزید پڑھیے

    میرے سینے میں شور سا کیا ہے

    میرے سینے میں شور سا کیا ہے جانتے ہو معاملہ کیا ہے سیر دنیا کی ٹھان لی ہے اگر مڑ کے بستی کو دیکھتا کیا ہے دیکھنے کو تو مڑ کے دیکھ لیں ہم دیکھنے کو مگر رہا کیا ہے خود سرابوں سے دوستی کی تھی ریگزاروں سے اب گلہ کیا ہے بدلے بدلے ہیں آشنا چہرے دوستو حادثہ ہوا کیا ہے آئنہ پوچھتا رہا ...

    مزید پڑھیے

    دنیا گھومے کیا کیا دیکھا

    دنیا گھومے کیا کیا دیکھا کوئی نہ ہم نے تم سا دیکھا شب بھر دیکھے خواب ترے دن بھر تیرا رستہ دیکھا تو اس پل تھا سامنے میرے میں نے جب آئینہ دیکھا نہر کنارے بیٹھے تھے ہم میں نے پھر وہ سپنا دیکھا دل کا شیشہ صاف کیا تو اس میں تیرا چہرہ دیکھا ان آنکھوں کے اندر جاذبؔ دنیا گھر کا نقشہ ...

    مزید پڑھیے

    نظروں سے کسی کو بھی گراتے نہیں جاناں

    نظروں سے کسی کو بھی گراتے نہیں جاناں ہر بات رقیبوں کو بتاتے نہیں جاناں رہتے ہیں وہ مرجھائے ہوئے موسم گل میں جو لوگ کبھی ہنستے ہنساتے نہیں جاناں ہر پل تری آنکھیں تری خوشبو ہے مرے ساتھ یہ بات مگر سب کو بتاتے نہیں جاناں اٹ سکتا ہے تیرا بھی اسی دھول سے چہرہ رسوائی کی یوں گرد اڑاتے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3