برسوں کا شناسا بھی شناسا نہیں لگتا

برسوں کا شناسا بھی شناسا نہیں لگتا
کچھ بھی دم ہجراں مجھے اچھا نہیں لگتا


کر لوں میں یقیں کیسے کہ بدلہ نہیں کچھ بھی
لہجہ ہی اگر آپ کا لہجہ نہیں لگتا


اک تیرے نہ ہونے سے ہوا حال یہ دل کا
بستی میں کوئی شخص بھی اپنا نہیں لگتا


کاغذ سے وہ مانوس سی خوشبو نہیں آئی
یہ خط بھی ترے ہاتھ کا لکھا نہیں لگتا


آنکھوں میں مری اس لیے جاذبؔ یہ نمی ہے
سوکھا ہوا دریا مجھے اچھا نہیں لگتا