ہمارے ساتھ ماضی کے کئی قصے نکل آئے

ہمارے ساتھ ماضی کے کئی قصے نکل آئے
بہت سے دوست دشمن مارنے مرنے نکل آئے


پلٹتا دیکھ کر منزل نے یوں آواز دی ہم کو
پرانے راستوں میں سے نئے رستے نکل آئے


کیا تھا صاف ہم نے راستہ اشجار کٹوا کر
کہاں سے روکنے کو راستہ پتے نکل آئے


ہماری نیند سے جب واپسی ممکن ہوئی یارو
کھلا ہم پر کہ ہم تو صبح سے آگے نکل آئے


ہمارے ساتھ جاذبؔ قافلہ نکلا تھا جو اس میں
بہت سے اجنبی تھے اور کچھ اپنے نکل آئے