سلیمان جاذب کی غزل

    مٹا کر پھر بنایا جا رہا ہے

    مٹا کر پھر بنایا جا رہا ہے ہمیں کوزہ بتایا جا رہا ہے وہی کچھ تو کریں گے اپنے بچے انہیں جو کچھ سکھایا جا رہا ہے وہی پانی پہ لکھتے جا رہے ہیں ہمیں جو کچھ پڑھایا جا رہا ہے ہتھیلی کی لکیریں ہیں کہ جن میں کوئی دریا بہایا جا رہا ہے ہمیں ڈرنا نہیں آتا ہے جاذبؔ ہمیں پھر بھی ڈرایا جا ...

    مزید پڑھیے

    زندگی ریگزار کی صورت

    زندگی ریگزار کی صورت گزری گزری بہار کی صورت وہ نہ آئے نظر تو ہے دنیا ایک اجڑے دیار کی صورت سرکشی چھوڑ کر کہیں اے دوست آ مرے غم گسار کی صورت یار کا ہے خیال بھی مجھ کو خواب کی اور خمار کی صورت موسم ہجر میں تری یادیں دشت میں آبشار کی صورت جا بجا آسمان پر جاذبؔ درد کونجوں کی ڈار ...

    مزید پڑھیے

    خود سے کوئی مکر گیا ہوگا

    خود سے کوئی مکر گیا ہوگا عشق دریا اتر گیا ہوگا نہیں دیکھا کوئی گریباں چاک ایک مجنوں تھا مر گیا ہوگا پھر رہا ہے جو اک بگولہ سا خواب اس کا بکھر گیا ہوگا اس لئے کرچیاں ہیں چاروں طرف آئنے سے وہ ڈر گیا ہوگا اب اسے یاد کیا دلائیں ہم کر کے وعدہ مکر گیا ہوگا

    مزید پڑھیے

    اپنے ہونے سے تو مکر گیا ہے

    اپنے ہونے سے تو مکر گیا ہے پیار کا بوجھ کیا اتر گیا ہے کوئی ملتا نہیں گریباں چاک اس کا مطلب ہے قیس مر گیا ہے پھر سے فصل بہار آنے تک پھول دل کا بکھر بکھر گیا ہے تو کہاں ہے اسے نہیں معلوم ڈھونڈنے تجھ کو در بدر گیا ہے آئنے کو بنانے والا بھی آئنہ دیکھتے ہی ڈر گیا ہے کب یقیں آئے گا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 3