سلیمان جاذب کی غزل

    گھرا نہیں اس جمال میں بھی

    گھرا نہیں اس جمال میں بھی کشش تھی جس کے خیال میں بھی رہی وہی تشنگی مسلسل فراق سا تھا وصال میں بھی جواب میں آ گیا وہ کیسے کہ جو نہیں تھا سوال میں بھی رہا مرے ساتھ میرا اللہ عروج دیکھا زوال میں بھی تمہی سے ہے یہ تمہارا جاذبؔ جہان اوج کمال میں بھی

    مزید پڑھیے

    ترے رستے میں بیٹھے ہیں تو اس میں کیا برائی ہے

    ترے رستے میں بیٹھے ہیں تو اس میں کیا برائی ہے تجھے ہم دیکھ لیتے ہیں تو اس میں کیا برائی ہے ہمارا جرم اتنا ہے تمہیں اپنا سمجھتے ہیں تمہیں اپنا سمجھتے ہیں تو اس میں کیا برائی ہے بچھڑ کر تم سے ہم جاناں تمہارے پاس ہوتے ہیں تمہارے پاس ہوتے ہیں تو اس میں کیا برائی ہے تمہارے زلف کے ...

    مزید پڑھیے

    روح میں مستی بھر دیتا ہے

    روح میں مستی بھر دیتا ہے عشق قلندر کر دیتا ہے کوئی محبت میں دل اپنا کوئی اپنا سر دیتا ہے سب کو مٹی کرنے والا کسی کسی کو پر دیتا ہے میں نے دیکھا بن مانگے وہ سب کی جھولی بھر دیتا ہے اب بھی شاخ پہ آ کر کوئی مجھ کو میری خبر دیتا ہے دشت دیا ہے جس نے جاذبؔ دیکھیں کب وہ گھر دیتا ہے

    مزید پڑھیے

    خدا کا شکر ہے کوئی بچھڑ کر لوٹ آیا ہے

    خدا کا شکر ہے کوئی بچھڑ کر لوٹ آیا ہے زمانے بھر کے افسانے بھی اپنے ساتھ لایا ہے تعارف ہو تو میں تم کو بتاؤں اس کے بارے میں کہ جس کی یاد نے مجھ کو ستایا ہے رلایا ہے سنا تو ہے کہ میرا نام سن کر وہ بت کافر ذرا سا گنگنایا ہے بہت سا مسکرایا ہے محبت مختلف انداز سے کرتا رہا ہے وہ کبھی اس ...

    مزید پڑھیے

    سنگ ہاتھوں میں لے کے سب آئے

    سنگ ہاتھوں میں لے کے سب آئے اور ستم یہ ترے سبب آئے پائی منزل تو سب نے یہ پوچھا آپ اس راستے پہ کب آئے صبح والے کہ شام والے دکھ پاس میرے ہی آئے جب آئے لوگ کیا کیا نہ عشق میں جاذبؔ چھوڑ کر نام اور نسب آئے

    مزید پڑھیے

    تجھ سے ہی سب بہار ہے مرے دوست

    تجھ سے ہی سب بہار ہے مرے دوست تو ہی دل کا قرار ہے مرے دوست تیری یادوں سے دل ہوا آباد ورنہ اجڑا دیار ہے مرے دوست لطف کے سائے میں مجھے رکھ لے دھوپ ہے ریگزار ہے مرے دوست تو ہے سر چڑھ کے بولتا جادو تو سراپا خمار ہے مرے دوست مجھ سے آباد ہے جو تنہائی زندگی کا سنگھار ہے مرے دوست دنیا ...

    مزید پڑھیے

    جب بھی اس کی مثال دیتی ہو

    جب بھی اس کی مثال دیتی ہو جان میری نکال دیتی ہو پہلے سنتی ہو غور سے باتیں پھر سلیقے سے ٹال دیتی ہو سب خطائیں تمہاری اپنی ہیں پھر بھی قسمت پہ ڈال دیتی ہو جب بھی کرنا ہو فیصلہ کوئی ایک سکہ اچھال دیتی ہو جان جاذبؔ تمہارا کیا ہوگا دشمنوں کو بھی ڈھال دیتی ہو

    مزید پڑھیے

    کیوں غلط رہ سے بچایا نہ گیا

    کیوں غلط رہ سے بچایا نہ گیا جانے کیوں موڑ کے لایا نہ گیا ماننے والا مری باتوں کو جانے کیوں مجھ سے منایا نہ گیا سر پھری تیز ہوا کے ہوتے دیپ الفت کا بجھایا نہ گیا روح پر ثبت ہوا وہ ایسا پھر کبھی مجھ سے مٹایا نہ گیا کٹ گیا پیڑ تو آنگن کا مگر میرے سر سے کبھی سایہ نہ گیا جب بھی ...

    مزید پڑھیے

    کوئی ذوق نظر ہونے لگا ہے

    کوئی ذوق نظر ہونے لگا ہے بہت آساں سفر ہونے لگا ہے کہاں سے لاؤ گے تم ماں کی ممتا اگر پردیس گھر ہونے لگا ہے سنبھالو اب تو اس بیمار کو تم فسانہ مختصر ہونے لگا ہے مرے الفاظ ضو دینے لگے ہیں غزل کہنا ہنر ہونے لگا ہے وہ پہلے ٹس سے مس ہوتا نہیں تھا اگر سے اب مگر ہونے لگا ہے لبوں پر اب ...

    مزید پڑھیے

    تو نہیں جب سے ہم سفر میرا

    تو نہیں جب سے ہم سفر میرا رہ گزر ہے نہ ہے شجر میرا کون دے گا یہاں مجھے دستار ہر بشر چاہتا ہے سر میرا تیرے جانے سے کچھ نہیں ہوتا مجھ پہ ہونے لگا اثر میرا ہر کوئی تھا سراب میں کھویا دیکھتا کون پھر ہنر میرا اجنبی شہر اجنبی گلیاں کوئی دیوار ہے نہ در میرا میں بھی جاذبؔ عجب مسافر ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 3