Shaukat Wasti

شوکت واسطی

شوکت واسطی کی غزل

    دوست کو محرم بنا کر دشمن جاں کر دیا

    دوست کو محرم بنا کر دشمن جاں کر دیا تو نے اے دل آپ بربادی کا ساماں کر دیا لغزش آدم تو ہم تک آئی ہے میراث میں دیوتا ہوتے اسی خوبی نے انساں کر دیا راز کو جتنا چھپایا اور افشا ہو گیا تیرا چہرہ اور آنچل نے نمایاں کر دیا مہرباں نے غم غلط کرنے کی رکھی یہ سبیل جب پڑا ہے قحط مے تو زہر ...

    مزید پڑھیے

    کسی تمنا کسی دعا میں اثر نہیں ہے

    کسی تمنا کسی دعا میں اثر نہیں ہے خدا یقیناً ہے وہ ہمارا مگر نہیں ہے عدو ہی مل جائے فی‌ زمانہ کوئی مصمم رفیق تو خیر کوئی بھی معتبر نہیں ہے یہ مسئلہ اور ہے کہ چپ ہیں زباں داں سب معاملہ یہ نہیں کوئی باخبر نہیں ہے وہی ہے کیفیت اسیری محیط اگرچہ کھلی ہے زنجیر بند زنداں کا در نہیں ...

    مزید پڑھیے

    ہمارا طائر دل کب ہمارے بس میں ہے

    ہمارا طائر دل کب ہمارے بس میں ہے رہائی میں اسے تکلیف خوش قفس میں ہے بڑھوں اگر تو کسی تک مری رسائی نہ ہو رکوں تو یوں لگے وہ میری دسترس میں ہے کسے کسے یہ بتاؤں ترے تعلق سے کچھ امتیاز محبت میں اور ہوس میں ہے کشاں کشاں ہے روانہ مرا مسافر دل تری لطیف صدا نغمۂ جرس میں ہے تمام عمر رہا ...

    مزید پڑھیے

    مجھے تو رنج قبا ہائے تار تار کا ہے

    مجھے تو رنج قبا ہائے تار تار کا ہے خزاں سے بڑھ کے گلوں پر ستم بہار کا ہے جب آئے ہوش نہ تھا کس نگر سے آئے ہیں چلے تو علم نہیں قصد کس دیار کا ہے بیاں یہی سر منبر کریں گے پھر نکتہ ہمارے واسطے جس پر یہ حکم دار کا ہے ہر ایک ذرے کو ہے آفتاب کی توفیق ہر ایک بوند میں امکان آبشار کا ہے اگر ...

    مزید پڑھیے

    ہم عزیز اس قدر اب جی کا زیاں رکھتے ہیں

    ہم عزیز اس قدر اب جی کا زیاں رکھتے ہیں دوست بھی رکھتے ہیں تو دشمن جاں رکھتے ہیں طبعاً انسان تو دل دادۂ فصل گل ہے ہم عجب لوگ ہیں جو ذوق خزاں رکھتے ہیں عارض گل ہو لب یار ہو جام مے ہو جسم جل اٹھتا ہے ہم ہونٹ جہاں رکھتے ہیں واقعہ یہ بھی ہے حق بات نہیں کہہ سکتے یہ بھی دعویٰ ہے بجا منہ ...

    مزید پڑھیے

    تم پلاؤ یہ کم غنیمت ہے

    تم پلاؤ یہ کم غنیمت ہے مے نئی ہے تو سم غنیمت ہے ہے خوشی کی بھی کیفیت معلوم ہو میسر تو غم غنیمت ہے تم نہ آئے سحر تو آ ہی گئی دم بہ دم دم بہ دم غنیمت ہے اس میں سنگ گراں بھی ملتے ہیں راہ کا پیچ و خم غنیمت ہے رات دن آسماں ہیں چکر میں مل جو بیٹھیں بہم غنیمت ہے زندگانی کا اعتبار ...

    مزید پڑھیے

    غم میں خوشی خوشی میں کبھی غم بدل گئے

    غم میں خوشی خوشی میں کبھی غم بدل گئے باہم خواص شعلہ و شبنم بدل گئے اے عمر رائیگاں نہ کھلا غنچۂ مراد پلٹی کئی رتیں کئی موسم بدل گئے دیرینہ طبع لوگ ہیں ہم تو روایتاً بدلے بہت زیادہ اگر کم بدل گئے تیری نگاہ ہی نہ مری جاں بدل گئی محسوس ہو رہا ہے دو عالم بدل گئے دشمن تھے وضع دار تھے ...

    مزید پڑھیے

    تھی جو انہونی اسی بات کو کرتے دیکھا

    تھی جو انہونی اسی بات کو کرتے دیکھا جیتے جی دل کو کئی مرتبہ مرتے دیکھا وقت کو رنج میں ٹھہرا ہوا پایا ہم نے برق پا گر اسے راحت میں گزرتے دیکھا رو کے جی ہو گیا ہلکا تو دمک اٹھا منہ پھول کو اوس کی بوندوں سے نکھرتے دیکھا پیار ہی پیار میں جو زخم لگایا تھا کبھی تازہ کچھ اور اگا جب اسے ...

    مزید پڑھیے

    کسی کی چشم سادہ یاد آئی

    کسی کی چشم سادہ یاد آئی حریف جام و بادہ یاد آئی ہوئی ہر عافیت مدفون جس میں وہ دیوار فتادہ یاد آئی سواد دیر و کعبہ میں پہنچ کر تری محفل زیادہ یاد آئی کسی کو بے تمنا بھول بیٹھے کسی کی بے ارادہ یاد آئی زمانے سے ہوا دل تنگ جب بھی وہ آغوش کشادہ یاد آئی کبھی تجھ کو بھی اے صحبت ...

    مزید پڑھیے

    جس کی رہی تلاش ہمیشہ وہ تو نہ ہو

    جس کی رہی تلاش ہمیشہ وہ تو نہ ہو ممکن ہے تو ملے تو کوئی جستجو نہ ہو تو ہی بتا یہ عشق کا ہے کون سا مقام دل کو یہ آرزو ہے تری آرزو نہ ہو حسن تہی وفا کبھی اس پھول کو بھی دیکھ جس میں جمال رنگ تو ہو اور بو نہ ہو یوں ہے کسی کی کیفیت چشم کی ہوس جیسے کہیں شراب نہیں یا سبو نہ ہو اے دوست میرے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 4