تھی جو انہونی اسی بات کو کرتے دیکھا
تھی جو انہونی اسی بات کو کرتے دیکھا
جیتے جی دل کو کئی مرتبہ مرتے دیکھا
وقت کو رنج میں ٹھہرا ہوا پایا ہم نے
برق پا گر اسے راحت میں گزرتے دیکھا
رو کے جی ہو گیا ہلکا تو دمک اٹھا منہ
پھول کو اوس کی بوندوں سے نکھرتے دیکھا
پیار ہی پیار میں جو زخم لگایا تھا کبھی
تازہ کچھ اور اگا جب اسے بھرتے دیکھا
وہ کہ ٹھہرایا گیا تھا جسے واضح ممنوع
ہم نے ہر شخص کو اس رہ سے گزرتے دیکھا
چاند کو چاہا کہ وہ اس کے مقابل اترے
چہرہ آئینے میں اس نے جو سنورتے دیکھا
شوکتؔ اس دہر کو جتنا بھی سمیٹا ہم نے
آپ کو پھر اسی نسبت سے بکھرتے دیکھا