غم میں خوشی خوشی میں کبھی غم بدل گئے
غم میں خوشی خوشی میں کبھی غم بدل گئے
باہم خواص شعلہ و شبنم بدل گئے
اے عمر رائیگاں نہ کھلا غنچۂ مراد
پلٹی کئی رتیں کئی موسم بدل گئے
دیرینہ طبع لوگ ہیں ہم تو روایتاً
بدلے بہت زیادہ اگر کم بدل گئے
تیری نگاہ ہی نہ مری جاں بدل گئی
محسوس ہو رہا ہے دو عالم بدل گئے
دشمن تھے وضع دار تھے وہ معتبر رفیق
جو ساتھ ساتھ وقت کے پیہم بدل گئے
اک سانحہ سہی یہ دلوں کی لطیف ضد
کچھ دوست غیر ہو گئے کچھ ہم بدل گئے
شوکتؔ نہیں پڑا کوئی نظم چمن میں فرق
گلچیں و باغبان تو باہم بدل گئے