ہمارا طائر دل کب ہمارے بس میں ہے

ہمارا طائر دل کب ہمارے بس میں ہے
رہائی میں اسے تکلیف خوش قفس میں ہے


بڑھوں اگر تو کسی تک مری رسائی نہ ہو
رکوں تو یوں لگے وہ میری دسترس میں ہے


کسے کسے یہ بتاؤں ترے تعلق سے
کچھ امتیاز محبت میں اور ہوس میں ہے


کشاں کشاں ہے روانہ مرا مسافر دل
تری لطیف صدا نغمۂ جرس میں ہے


تمام عمر رہا ہے گمان لمحۂ وصل
بس اس برس میں ہے شاید یہ اس برس میں ہے


مجھے تو دل کے قدم تیرے پاس لے آئے
وگرنہ ذہن بدستور پیش و پس میں ہے


ہے اک حسین کا عطیہ یہ کیفیت شوکتؔ
جو انگ انگ میں ہے جو نفس نفس میں ہے