کسی تمنا کسی دعا میں اثر نہیں ہے

کسی تمنا کسی دعا میں اثر نہیں ہے
خدا یقیناً ہے وہ ہمارا مگر نہیں ہے


عدو ہی مل جائے فی‌ زمانہ کوئی مصمم
رفیق تو خیر کوئی بھی معتبر نہیں ہے


یہ مسئلہ اور ہے کہ چپ ہیں زباں داں سب
معاملہ یہ نہیں کوئی باخبر نہیں ہے


وہی ہے کیفیت اسیری محیط اگرچہ
کھلی ہے زنجیر بند زنداں کا در نہیں ہے


رفاقتوں کی ہماہمی مشترک بہت ہے
مگر دلوں کا تپاک باہم دگر نہیں ہے


روانہ کس قافلے کے ہم راہ ہو گئے ہم
مسلسل احساس ہے کوئی ہم سفر نہیں ہے


گر آدمی آدمی سے پائے امان شوکتؔ
تو پھر کسی بھی مہیب آفت کا ڈر نہیں ہے