Shaukat Wasti

شوکت واسطی

شوکت واسطی کی غزل

    اجڑے ہوئے دل میں بھی ترا دھیان رہا ہے

    اجڑے ہوئے دل میں بھی ترا دھیان رہا ہے شہروں سے بھی آباد بیابان رہا ہے ہم نے تجھے سو رنج میں چھوڑا تھا مگر دوست دل ترک تعلق پہ پشیمان رہا ہے شاید یہ کسی تازہ مصیبت کے ہے در پے کچھ روز سے دل میرا کہاں مان رہا ہے ڈھونڈا جسے تا عمر کہیں وہ تو نہیں تم ٹھہرو تو سہی دل تمہیں پہچان رہا ...

    مزید پڑھیے

    دوست کو محرم بنا کر دشمن جاں کر دیا

    دوست کو محرم بنا کر دشمن جاں کر دیا تو نے اے دل آپ بربادی کا ساماں کر دیا لغزش آدم تو ہم تک آئی ہے میراث میں تھے فرشتے لیکن اس خوبی نے انساں کر دیا مہرباں نے غم غلط کرنے کی رکھی ہے سبیل جب پڑا ہے قحط مے تو زہر ارزاں کر دیا کیسے کیسے عزم ہو کر رہ گئے منزل کی نذر کیسی کیسی خواہشوں ...

    مزید پڑھیے

    جسم کو جاں کا سرا پردۂ رعنائی کر

    جسم کو جاں کا سرا پردۂ رعنائی کر سائے کو دھوپ میں پھیلا کے نہ ہرجائی کر فکر کو ذہن کی دیوار پہ تصویر بنا آنکھ کو مدح سرا دل کو تماشائی کر ہیں تری ذات میں بھی بو قلموں ہنگامے تو اسے صرف تماشہ گہۂ تنہائی کر شہر اور شہر ترا نام نکلتا جائے اے ستم گر مری بھی کھول کے رسوائی کر عین ...

    مزید پڑھیے

    آئے کیا آپ کی پناہ میں ہم

    آئے کیا آپ کی پناہ میں ہم گھر میں محفوظ ہیں نہ راہ میں ہم ہاں وہی طمطراق کا رشتہ دیکھتے ہیں سر و کلاہ میں ہم اور بھی مورد ثواب ہوئے مبتلا جب سے ہیں گناہ میں ہم مدعی تھے ہزار خوبی کے پر نہ آئے کسی نگاہ میں ہم علم سے مدرسے میں شوکتؔ دور اور عرفاں سے خانقاہ میں ہم

    مزید پڑھیے

    گرد رہ کارواں رہے ہیں

    گرد رہ کارواں رہے ہیں ہم منزلوں کے نشاں رہے ہیں کچھ ہم بھی رہے ہیں اپنے دشمن کچھ آپ بھی مہرباں رہے ہیں کشتی ہی نہ لگ سکی کنارے دریا تو بہت رواں رہے ہیں جب تم ہمیں یاد آ گئے ہو اے دوست تو ہم کہاں رہے ہیں معلوم ہوا کہ جان جاں تک حائل ہمیں درمیاں رہے ہیں اب یوں نہ یہ بستیاں ...

    مزید پڑھیے

    بھولتے جاتے ہیں یادوں میں سمانے والے

    بھولتے جاتے ہیں یادوں میں سمانے والے جیسے اب واقعی رخصت ہوئے جانے والے سائے کے واسطے تعمیر کریں گے پھر لوگ دھوپ کے واسطے دیوار گرانے والے رائیگاں عہد پس عہد گئی قربانی خوں بہا لے گئے خود خون بہانے والے وقت کو ساتھ لیے آئے یہاں تک ہم ہی ہو گئے لوگ ہمیں اگلے زمانے والے یہ جہاں ...

    مزید پڑھیے

    نظر نواز وہ پہلی سی ہستیاں نہ رہیں

    نظر نواز وہ پہلی سی ہستیاں نہ رہیں روا ہمارے لیے بت پرستیاں نہ رہیں فضا ہی وہ نہیں دیہات اور شہروں کی بسائی تھیں جو کبھی اب وہ بستیاں نہ رہیں تری نگاہ سے پینے کی آرزو کی تھی پھر اس کے بعد شرابوں میں مستیاں نہ رہیں یہ اور بات ترا دل نہ ہو سکا شاداب وگرنہ آنکھیں مری کب برستیاں نہ ...

    مزید پڑھیے

    کچھ ہنر اور سمجھتے ہیں نہ فن جانتے ہیں

    کچھ ہنر اور سمجھتے ہیں نہ فن جانتے ہیں ہم ترے ذکر کو شایان سخن جانتے ہیں روح کی غایت علوی کا نہ ہو اندازہ ہم مگر مقصد تخلیق بدن جانتے ہیں استعارے ہیں ترے عارض و چشم و لب کے یہ حدیث گل و شہلا و سمن جانتے ہیں یہ الگ بات نہیں آئی زمانہ سازی ہم مگر خوب زمانے کا چلن جانتے ہیں رقص ...

    مزید پڑھیے

    درمیاں گر ہیں فاصلے کوئی

    درمیاں گر ہیں فاصلے کوئی دل کے رستے سے آ ملے کوئی دشت ہے راہ میں بہار یہاں گل نمونے ہی کو کھلے کوئی جی میں ہے بے رخی کریں اب ہم اور ہم سے کرے گلے کوئی یوں بھی ٹوٹے ہیں زود رنج حبیب زندگی بھر کے سلسلے کوئی لٹ گئے ہیں پہنچ کے منزل پر جو بچے رہ میں قافلے کوئی ناشناسان فن سے تو ...

    مزید پڑھیے

    پھولوں سے بھرے باغ بھی ویراں نظر آئے

    پھولوں سے بھرے باغ بھی ویراں نظر آئے شہروں میں بہت کم ہمیں انساں نظر آئے صیقل نہ کرو آئنے کیا اس کی ضرورت کردار تو چہروں پہ نمایاں نظر آئے کی ہے ثمر و گل کی عجب پرورش اس نے تا حد نظر باغ بیاباں نظر آئے کپڑے تو الگ جس نے بدن نوچ لیے ہیں لو نام کہ وہ شخص بھی عریاں نظر آئے حیرت ہے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 4