دوست کو محرم بنا کر دشمن جاں کر دیا
دوست کو محرم بنا کر دشمن جاں کر دیا
تو نے اے دل آپ بربادی کا ساماں کر دیا
لغزش آدم تو ہم تک آئی ہے میراث میں
دیوتا ہوتے اسی خوبی نے انساں کر دیا
راز کو جتنا چھپایا اور افشا ہو گیا
تیرا چہرہ اور آنچل نے نمایاں کر دیا
مہرباں نے غم غلط کرنے کی رکھی یہ سبیل
جب پڑا ہے قحط مے تو زہر ارزاں کر دیا
اور پھیلی بو سمٹ کر پھول کے فانوس میں
تیرگی نے روشنی کو اور عریاں کر دیا
کب زوال آیا ہے اپنی عقل پر لیکن اسے
وسوسوں نے کند اندیشوں نے حیراں کر دیا
اک بیاباں میں ہوں شوکتؔ عندلیب نغمہ زن
شوق نے کن بد مذاقوں میں غزل خواں کر دیا