تم پلاؤ یہ کم غنیمت ہے

تم پلاؤ یہ کم غنیمت ہے
مے نئی ہے تو سم غنیمت ہے


ہے خوشی کی بھی کیفیت معلوم
ہو میسر تو غم غنیمت ہے


تم نہ آئے سحر تو آ ہی گئی
دم بہ دم دم بہ دم غنیمت ہے


اس میں سنگ گراں بھی ملتے ہیں
راہ کا پیچ و خم غنیمت ہے


رات دن آسماں ہیں چکر میں
مل جو بیٹھیں بہم غنیمت ہے


زندگانی کا اعتبار نہیں
جو گزر جائے دم غنیمت ہے


کعبہ و دیر سے نجات ملی
تیرا نقش قدم غنیمت ہے


شاعری دل لگی نہیں شوکتؔ
جو ہے زور قلم غنیمت ہے