ہم عزیز اس قدر اب جی کا زیاں رکھتے ہیں

ہم عزیز اس قدر اب جی کا زیاں رکھتے ہیں
دوست بھی رکھتے ہیں تو دشمن جاں رکھتے ہیں


طبعاً انسان تو دل دادۂ فصل گل ہے
ہم عجب لوگ ہیں جو ذوق خزاں رکھتے ہیں


عارض گل ہو لب یار ہو جام مے ہو
جسم جل اٹھتا ہے ہم ہونٹ جہاں رکھتے ہیں


واقعہ یہ بھی ہے حق بات نہیں کہہ سکتے
یہ بھی دعویٰ ہے بجا منہ میں زباں رکھتے ہیں


جس جگہ دل تھا وہاں حسرت دل باقی ہے
جس جگہ زخم تھا اب ایک نشاں رکھتے ہیں


ہم سے کر جاتا ہے وہ شخص فریب آخر کار
جس کے بارے میں بھی ہم نیک گماں رکھتے ہیں


شوکتؔ اسلوب غزل ہے متعین تاہم
اس میں ہم منفرد انداز بیاں رکھتے ہیں