جس کی رہی تلاش ہمیشہ وہ تو نہ ہو

جس کی رہی تلاش ہمیشہ وہ تو نہ ہو
ممکن ہے تو ملے تو کوئی جستجو نہ ہو


تو ہی بتا یہ عشق کا ہے کون سا مقام
دل کو یہ آرزو ہے تری آرزو نہ ہو


حسن تہی وفا کبھی اس پھول کو بھی دیکھ
جس میں جمال رنگ تو ہو اور بو نہ ہو


یوں ہے کسی کی کیفیت چشم کی ہوس
جیسے کہیں شراب نہیں یا سبو نہ ہو


اے دوست میرے عشق پہ تنقید بھی ضرور
لیکن یہ سوچ لے یہ تری آبرو نہ ہو


ہاتھوں میں جو کھلا ہے وہ رنگ حنا سہی
خنجر کو دیکھ اس پہ کسی کا لہو نہ ہو


اے زلف پھیل جا کہ نمائش نہیں ہے یہ
ہستی کا کیا ثبوت جو ذوق نمو نہ ہو


شوکتؔ ہم اس کے درد تمنا کو بھول جائیں
پر وہ ستم ظریف بھی تو روبرو نہ ہو