Shareef Munawwar

شریف منور

شریف منور کی غزل

    یہ شاخ سبز جو پیلی ہوئی ہے

    یہ شاخ سبز جو پیلی ہوئی ہے ہر اک موسم میں تبدیلی ہوئی ہے ہوئی ہے شخصیت بے آب اپنی فقط پوشاک بھڑکیلی ہوئی ہے کیا جب بھی نظر انداز غم کو گرفت غم بہت ڈھیلی ہوئی ہے لگی ہے آگ جب بھی جھونپڑی میں تو دشمن ایک اک تیلی ہوئی ہے ہر اک آزاد ہے پابند سا کچھ گھٹاؤں میں ہوا سیلی ہوئی ...

    مزید پڑھیے

    رشتۂ دل کو دیر پا رکھنا

    رشتۂ دل کو دیر پا رکھنا اس تعلق میں فاصلہ رکھنا سارا عالم ہوا ہے تنگ نظر دوستو تم تو دل بڑا رکھنا آگے بڑھنے کے حوصلے کے ساتھ واپسی کا بھی راستہ رکھنا زندگی کے بڑے تقاضے ہیں خود کو ہر رنگ آشنا رکھنا شہر کو اپنا جاننا لیکن زخم آوارگی ہرا رکھنا بے وفا سب نہ سب ہیں اہل وفا یہ ...

    مزید پڑھیے

    یہ کیا کہ پردۂ الفاظ میں چھپائے مجھے

    یہ کیا کہ پردۂ الفاظ میں چھپائے مجھے ہر ایک شعر مرا سامنے بھی لائے مجھے مرا بدن ہی تمازت پسند ہے ورنہ ہزار راہ میں ملتے رہے ہیں سائے مجھے میں با وفا تھا مگر اس سے بے وفائی کی کہ اس سلوک سے شاید وہ بھول جائے مجھے گزر رہا ہے یہ کس مرحلے سے فن میرا جو نقش خود میں بناؤں وہی ڈرائے ...

    مزید پڑھیے

    عیش حاضر بھی کہاں غم سے رہائی دے گا

    عیش حاضر بھی کہاں غم سے رہائی دے گا لذت قرب میں احساس جدائی دے گا ایک ہی عکس ہر اک عکس پہ ہوگا حاوی لاکھ چہروں میں وہی شخص دکھائی دے گا اف یہ اخلاص ترا اف یہ ترا طرز تپاک تو مجھے کون سا دکھ اے مرے بھائی دے گا ہائے وہ غم کہ ملے گا مجھے شہنائی سے ہائے وہ دکھ جو ترا دست حنائی دے ...

    مزید پڑھیے

    محو تکرار سود و زیاں ہیں

    محو تکرار سود و زیاں ہیں اک شجر کی کئی ٹہنیاں ہیں شمع شب بھر جلائی بجھائی فرش پر جا بجا تیلیاں ہیں چند تنکوں کی اپنی طلب تھی اب چمن در چمن بجلیاں ہیں کھل رہے ہیں بھرم چاہتوں کے قربتوں میں سوا دوریاں ہیں شب کے ہاتھوں میں اب تک منورؔ دامن صبح کی دھجیاں ہیں

    مزید پڑھیے

    آب و ہوا تو آ نہ سکی اختیار میں

    آب و ہوا تو آ نہ سکی اختیار میں کاغذ کے پھول ہم نے سجائے بہار میں گہرائیوں سے دل کی ابھرتا ہے حرف حرف تفصیل کم نہیں ہے مرے اختصار میں احساس کیا دلائیں ہم اپنے وجود کا ہم سے نہ جانے کتنے لگے ہیں قطار میں ہم کر رہے ہیں تلخ حقیقت کا سامنا یہ جانتے ہوئے کہ سکوں ہے فرار میں یہ اور ...

    مزید پڑھیے

    مجھ سا کب شہر گرد تھا پہلے

    مجھ سا کب شہر گرد تھا پہلے جو تھا صحرا نورد تھا پہلے اتنی ہنگامہ خیز کب تھی حیات اتنا تنہا نہ فرد تھا پہلے برف باری تو ہوتی رہتی ہے سرد ہوں میں نہ سرد تھا پہلے اس قدر تو نہ پھول اے سرسوں سبز موسم بھی زرد تھا پہلے جس کو دیکھا وہ کہہ رہا تھا غزل معتبر کب یہ درد تھا پہلے

    مزید پڑھیے

    ذرا سی دیر سہی رخ بدلنا چاہتا ہے

    ذرا سی دیر سہی رخ بدلنا چاہتا ہے جسے بھی دیکھیے گھر سے نکلنا چاہتا ہے مرا مزاج سمجھنے کی بھی کرے زحمت وہ ایک شخص کہ مجھ کو بدلنا چاہتا ہے لرز رہی ہے یہاں لو چراغ خانہ کی بتاؤ کون سر راہ جلنا چاہتا ہے اک اضطراب ہے دل سے دریچۂ جاں تک یہ کون مجھ میں چھپا ہے نکلنا چاہتا ہے نئے سفر ...

    مزید پڑھیے

    درد جب شعر میں ڈھل جاتے ہیں

    درد جب شعر میں ڈھل جاتے ہیں لفظ مفہوم بدل جاتے ہیں گھر میں آتے ہیں بہت رات گئے منہ اندھیرے ہی نکل جاتے ہیں سب کو احساس کہاں ہے کہ سبھی کچھ نہ کچھ روز بدل جاتے ہیں وہی دریا ہیں کہ جن کے رستے بحر کی سمت نکل جاتے ہیں صرف صحرا ہی پہ الزام ہے کیوں پھول گلشن میں بھی جل جاتے ہیں لوگ ...

    مزید پڑھیے

    شیشۂ دل دکان میں آیا

    شیشۂ دل دکان میں آیا پتھروں کی امان میں آیا ہم تھے صحرا میں تب بہ مشکل وہ اپنے کمرے سے لان میں آیا اف وہ صدیاں کہ ذہن سے گزریں اف وہ لمحہ کہ دھیان میں آیا مجھ سا احساس اور مجھ سا جنون کب کسی نوجوان میں آیا مجھ سا صحرا نورد و سودائی کب ہر اک خاندان میں آیا سچ بتا طبع حاشیہ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 4