ذرا سی دیر سہی رخ بدلنا چاہتا ہے

ذرا سی دیر سہی رخ بدلنا چاہتا ہے
جسے بھی دیکھیے گھر سے نکلنا چاہتا ہے


مرا مزاج سمجھنے کی بھی کرے زحمت
وہ ایک شخص کہ مجھ کو بدلنا چاہتا ہے


لرز رہی ہے یہاں لو چراغ خانہ کی
بتاؤ کون سر راہ جلنا چاہتا ہے


اک اضطراب ہے دل سے دریچۂ جاں تک
یہ کون مجھ میں چھپا ہے نکلنا چاہتا ہے


نئے سفر پہ کیا جس نے مجھ کو آمادہ
وہی تو اب مرا رستا بدلنا چاہتا ہے


بلا سے تاج میں چمکے کہ خاک میں مل جائے
گہر تو بطن صدف سے نکلنا چاہتا ہے


خوشی تو یہ ہے کہ چلنا سکھا رہا ہوں اسے
جو شخص مجھ سے بھی آگے نکلنا چاہتا ہے