درد جب شعر میں ڈھل جاتے ہیں
درد جب شعر میں ڈھل جاتے ہیں
لفظ مفہوم بدل جاتے ہیں
گھر میں آتے ہیں بہت رات گئے
منہ اندھیرے ہی نکل جاتے ہیں
سب کو احساس کہاں ہے کہ سبھی
کچھ نہ کچھ روز بدل جاتے ہیں
وہی دریا ہیں کہ جن کے رستے
بحر کی سمت نکل جاتے ہیں
صرف صحرا ہی پہ الزام ہے کیوں
پھول گلشن میں بھی جل جاتے ہیں
لوگ چلتے ہیں منورؔ کس سمت
اور کس سمت نکل جاتے ہیں