آب و ہوا تو آ نہ سکی اختیار میں
آب و ہوا تو آ نہ سکی اختیار میں
کاغذ کے پھول ہم نے سجائے بہار میں
گہرائیوں سے دل کی ابھرتا ہے حرف حرف
تفصیل کم نہیں ہے مرے اختصار میں
احساس کیا دلائیں ہم اپنے وجود کا
ہم سے نہ جانے کتنے لگے ہیں قطار میں
ہم کر رہے ہیں تلخ حقیقت کا سامنا
یہ جانتے ہوئے کہ سکوں ہے فرار میں
یہ اور بات ہے کہ یہ صدمہ بھی سہہ گئے
ورنہ تو دکھ بلا کا ہوا اپنی ہار میں