Shareef Munawwar

شریف منور

شریف منور کی غزل

    دیدہ و دل میں اتر جاتا ہے

    دیدہ و دل میں اتر جاتا ہے ہر عذاب آ کے ٹھہر جاتا ہے کوئی جی اٹھتا ہے مجھ میں ہر روز روز مجھ میں کوئی مر جاتا ہے یہ ملاقات ہے چوراہے کی دیکھیے کون کدھر جاتا ہے فکر گھر کی ہو تو وحشت چھوٹے کار وحشت ہو تو گھر جاتا ہے رات کس طرح مری جاں گزرے دن تو دفتر میں گزر جاتا ہے یہ جو طوفان ہے ...

    مزید پڑھیے

    کر کے شکایت غم حالات مت گنوا

    کر کے شکایت غم حالات مت گنوا برسوں کے بعد کی یہ ملاقات مت گنوا عرفان کائنات بھی اظہار ذات ہے اے بے شعور اپنے مفادات مت گنوا موقع ملا تجھے تو لگا تو بھی قہقہے ہاتھ آئے ہیں جو سکھ کے یہ لمحات مت گنوا دفتر کے بعد بھی وہی دفتر کا تذکرہ دن تو گنوا دیا ہے مگر رات مت گنوا موسم کا خاک ...

    مزید پڑھیے

    بدل بدل کے وہی صورتیں دکھائے کہیں

    بدل بدل کے وہی صورتیں دکھائے کہیں یہ عہد نو بھی پرانے ہی دکھ نہ لائے کہیں پھر اس کے حسن کی رنگت نہ ہو بہاروں میں پھر اس کی زلف کی خوشبو ہوا نہ لائے کہیں نگاہ رک گئی کس پر کہ پھر ہٹی ہی نہیں قدم اکھڑ گئے ایسے کہ جم نہ پائے کہیں بہت ہے رند خرابات آج کل ہشیار کہ مے پئے یہ کہیں اور ...

    مزید پڑھیے

    دامن شب میں ستارے چمکے

    دامن شب میں ستارے چمکے ناامیدی میں سہارے چمکے جو کبھی باعث رسوائی تھے اب وہی داغ ہمارے چمکے ایک خورشید ڈھلا سینے میں سر مژگاں کئی تارے چمکے بحر کس شان سے پایاب ہوا ہم جو ڈوبے تو کنارے چمکے مہر ابھرا تو سبھی روشن تھے کون سے آپ ہی نیارے چمکے عاشقی در بدری نغمہ گری ہم سے یہ ...

    مزید پڑھیے

    زندگی دشت بے حدود میں ہے

    زندگی دشت بے حدود میں ہے اک عدم سا مرے وجود میں ہے شاعری عاشقی و مے نوشی ہر خرابی مری نمود میں ہے ایک دل میں ہیں تہ بہ تہ سو غم ایک جاں کتنی ہی قیود میں ہے شہر و صحرا میں ہو رہی ہے تمیز اب جنوں ہوش کی حدود میں ہے وہ نہیں ہے جو آ رہا ہے نظر اک وجود اور ہر وجود میں ہے

    مزید پڑھیے

    ہر بدلتے ہوئے منظر میں رہو

    ہر بدلتے ہوئے منظر میں رہو نئی الجھن نئے چکر میں رہو رابطہ گھر سے رہے باہر کا کسی روزن کی طرح گھر میں رہو رات بھر سیر کرو دنیا کی رات بھر اپنے ہی بستر میں رہو حادثو دل میں بسا لوں تم کو سانحو آؤ مرے گھر میں رہو ہر نفس دفتر احساس لکھو ہر گھڑی عرصۂ محشر میں رہو حسن سڑکوں کا ...

    مزید پڑھیے

    ایسا محسوس کر رہا ہوں میں

    ایسا محسوس کر رہا ہوں میں جیسے اس شہر میں نیا ہوں میں اپنی خوشبو سے خوف آتا ہے کن ہواؤں میں گھر گیا ہوں میں تیری کچھ اور بات ہے ورنہ ساتھ اپنے بھی کم رہا ہوں میں خال و خد پہ نہ اپنے غور کرو مجھ سے روٹھو کہ آئنہ ہوں میں اف یہ کیف فسانہ ہائے جنوں لکھ رہا ہوں مٹا رہا ہوں میں کوئی ...

    مزید پڑھیے

    ہر تماشا چند لمحوں میں پرانا ہو گیا

    ہر تماشا چند لمحوں میں پرانا ہو گیا رفتہ رفتہ بند پھر اک اک دریچہ ہو گیا جانے کس جانب سے سورج کی کرن مجھ پر پڑی میرا سایا میرے قامت سے بھی اونچا ہو گیا آگہی اور عاشقی دیوانگی اور مے کشی تجربہ بائیس برسوں میں بہت سا ہو گیا یہ سزائے شوق ہے یا قیمت خود آگہی دل ہوا پر نور تو بے نور ...

    مزید پڑھیے

    بے مقصد خاکے مبہم تصویریں ہیں

    بے مقصد خاکے مبہم تصویریں ہیں کاغذ پر کچھ نا معلوم لکیریں ہیں اک دریا میں اٹھتی ہیں لاکھوں موجیں اک انساں ہے اور کتنی تصویریں ہیں اچھا چہرہ اکثر دھوکا دیتا ہے عمدہ کاغذ پر گھٹیا تحریریں ہیں ان کی نظمیں خوب مرے اشعار فضول خواب ہیں یکساں الگ الگ تعبیریں ہیں عہد حاضر کا وحشی ...

    مزید پڑھیے

    اپنے دفتر سے نکلتے ہیں تو گھر جاتے ہیں

    اپنے دفتر سے نکلتے ہیں تو گھر جاتے ہیں لوگ جینے کی تگ و دو میں بھی مر جاتے ہیں رات بھر ہوتے ہیں کس طرح نہ جانے یکجا صبح دم شہر کی سڑکوں پہ بکھر جاتے ہیں شاخ گل کتنی ہی فصلوں کے اٹھاتی ہے عذاب رنگ و بو پھول میں یوں ہی نہیں بھر جاتے ہیں حادثے رہتے ہیں یوں عمر رواں کے ہم راہ جیسے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 4