Shareef Munawwar

شریف منور

شریف منور کی غزل

    جو بات دل میں تھی کاغذ پہ کب وہ آئی ہے

    جو بات دل میں تھی کاغذ پہ کب وہ آئی ہے کہ اب قلم میں تو مانگے کی روشنائی ہے یہی نہیں کہ دھواں چبھ رہا ہے آنکھوں میں کنواں بھی سامنے ہے اور عقب میں کھائی ہے میں اپنے جسم کے دھبے چھپائے پھرتا ہوں مرے لباس سے مہنگی مری دھلائی ہے جو تیرے قرب میں گزری نہ تیری فرقت میں وہ عمر ہم نے نہ ...

    مزید پڑھیے

    موتی موتی ٹٹولتے رہیے

    موتی موتی ٹٹولتے رہیے ایک اک لفظ تولتے رہیے بند کیجے کبھی دریچوں کو کبھی دروازے کھولتے رہیے کیوں سر انجمن رہے خاموش اب اکیلے میں بولتے رہیے شہر کی دل کشی میں کیا شک ہے جیب کو بھی ٹٹولتے رہیے بچ گئے ہیں اگر سمندر سے اپنی لہروں میں ڈولتے رہیے

    مزید پڑھیے

    سارے عالم کے درد مند رہے

    سارے عالم کے درد مند رہے ہم بھی کیا انتہا پسند رہے سرکشی تھی ہماری فطرت میں پست جتنے ہوئے بلند رہے ہوشمندی تو اک ضرورت تھی فطرتاً ہم جنوں پسند رہے آبرو فن کی انکسار سے تھی سر جھکایا تو سر بلند رہے ہم زمانے کے درد اپنا کر اپنے گھر ہی میں نا پسند رہے بعد تیرے نہ جی لگا لیکن کون ...

    مزید پڑھیے

    مقبرہ بن جائے خود معمار کا

    مقبرہ بن جائے خود معمار کا کیا بھروسہ ریت کی دیوار کا کس طرف اٹھے قدم کس کو غرض شہر میں چرچا رہا رفتار کا غم زدہ تو مطمئن سا تھا مگر کس نے سمجھا غم کسی غم خوار کا میں ہوں اور ہر ذرۂ صحرا کا غم تو ہے اور ماتم در و دیوار کا رابطہ رکھئے ہر اک فن کار سے شعر کہئے اپنے ہی معیار کا اس ...

    مزید پڑھیے

    چاہنے پر بھی نہ چاہا ہم کو

    چاہنے پر بھی نہ چاہا ہم کو اس نے ہم سے بھی چھپایا ہم کو جس نے مضمون لکھے تھے ہم پر اس نے پھر خط بھی نہ لکھا ہم کو جو مسرت ملی تقسیم ہوئی اور ملا درد سو تنہا ہم کو حادثوں ہی نے چڑھایا پروان غم ملے حوصلہ افزا ہم کو ہم کہ دنیا کے لئے روئے ہیں دیکھنا روئے گی دنیا ہم کو

    مزید پڑھیے

    نغمگی سے سکوت بہتر تھا

    نغمگی سے سکوت بہتر تھا میں تھا اور اک کرائے کا گھر تھا کوئی مجھ سا نہ دوسرا آیا یوں تو ہر شخص مجھ سے بہتر تھا ہر طرف قحط آب تھا لیکن ایک طوفان میرے اندر تھا میں بنا تھا خلیفۂ دوراں یوں کہ کانٹوں کا تاج سر پر تھا میں مسلسل وہاں چلا کہ جہاں دو قدم کا سفر بھی دوبھر تھا گھر گیا ...

    مزید پڑھیے

    حواس میں وہ رہا ہو کہ بد حواس بہت

    حواس میں وہ رہا ہو کہ بد حواس بہت ہر آدمی کو بدلنے پڑے لباس بہت تھکن سے چور بدن دشت یاس و تنہائی اندھیری رات ندی دور اور پیاس بہت شراب خانے کا سادہ سا اک اصول یہ ہے جسے شراب میسر اسے گلاس بہت قدم قدم نظر آتے ہیں موت کے سائے ہمارے دشت سے شہروں میں ہے ہراس بہت بہر عمل ابھی رد عمل ...

    مزید پڑھیے

    جنون شوق میں اپنی گرہ سے کیا نہ گیا

    جنون شوق میں اپنی گرہ سے کیا نہ گیا یہ اور بات کہ اب تک وہ حوصلا نہ گیا غبار راہ تھے برسا جوں ہی سحاب کرم کچھ ایسے بیٹھ گئے ہم کہ پھر اٹھا نہ گیا یہ حادثہ ہے کہ افسانۂ غم ہستی کہیں کہا نہ گیا اور کہیں سنا نہ گیا کہاں کہاں اسے دیکھوں کہاں کہاں جاؤں تلاش کو وہ کوئی دائرہ بنا نہ ...

    مزید پڑھیے

    نئی فضا میں رہے ہم نئے سفر میں رہے

    نئی فضا میں رہے ہم نئے سفر میں رہے یہ اور بات کہ اپنے ہی بال و پر میں رہے ہوا تھی اپنی مخالف کہ تیرگی تھی حریف چراغ بن کے جلے اور رہ گزر میں رہے مذاق در بدری ہر قدم کے ساتھ رہا سفر میں جب نہ رہے خواہش سفر میں رہے مخالفت میں کسی کی جو تیرے ساتھ ہوئے یہ مت سمجھ کہ تیرے حلقۂ اثر میں ...

    مزید پڑھیے

    دیواروں میں در رکھتے ہیں

    دیواروں میں در رکھتے ہیں روشن ہر منظر رکھتے ہیں سیج سجاتے ہیں پھولوں کی کانٹوں کا بستر رکھتے ہیں اپنے اندر سو ہنگامے گم گم بام و در رکھتے ہیں دیواریں ہیں قدم قدم پر جس بستی میں گھر رکھتے ہیں کچھ بھی ہوں چیزوں کی شکلیں ہم بھی ایک نظر رکھتے ہیں گرمی سردی کا اندازہ بے گھر ہی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 4