عیش حاضر بھی کہاں غم سے رہائی دے گا
عیش حاضر بھی کہاں غم سے رہائی دے گا
لذت قرب میں احساس جدائی دے گا
ایک ہی عکس ہر اک عکس پہ ہوگا حاوی
لاکھ چہروں میں وہی شخص دکھائی دے گا
اف یہ اخلاص ترا اف یہ ترا طرز تپاک
تو مجھے کون سا دکھ اے مرے بھائی دے گا
ہائے وہ غم کہ ملے گا مجھے شہنائی سے
ہائے وہ دکھ جو ترا دست حنائی دے گا
مرے احساس سے ظاہر ہے صداقت میری
میں جو چاہوں گا وہی رنگ دکھائی دے گا
سر پھرا لاکھ سہی پھر بھی منورؔ کب تک
برف احساس کو تو شعلہ قبائی دے گا