محو تکرار سود و زیاں ہیں
محو تکرار سود و زیاں ہیں
اک شجر کی کئی ٹہنیاں ہیں
شمع شب بھر جلائی بجھائی
فرش پر جا بجا تیلیاں ہیں
چند تنکوں کی اپنی طلب تھی
اب چمن در چمن بجلیاں ہیں
کھل رہے ہیں بھرم چاہتوں کے
قربتوں میں سوا دوریاں ہیں
شب کے ہاتھوں میں اب تک منورؔ
دامن صبح کی دھجیاں ہیں