بے مقصد خاکے مبہم تصویریں ہیں

بے مقصد خاکے مبہم تصویریں ہیں
کاغذ پر کچھ نا معلوم لکیریں ہیں


اک دریا میں اٹھتی ہیں لاکھوں موجیں
اک انساں ہے اور کتنی تصویریں ہیں


اچھا چہرہ اکثر دھوکا دیتا ہے
عمدہ کاغذ پر گھٹیا تحریریں ہیں


ان کی نظمیں خوب مرے اشعار فضول
خواب ہیں یکساں الگ الگ تعبیریں ہیں


عہد حاضر کا وحشی ہوں میرے لئے
نئی پرانی کتنی ہی زنجیریں ہیں