اپنے دفتر سے نکلتے ہیں تو گھر جاتے ہیں

اپنے دفتر سے نکلتے ہیں تو گھر جاتے ہیں
لوگ جینے کی تگ و دو میں بھی مر جاتے ہیں


رات بھر ہوتے ہیں کس طرح نہ جانے یکجا
صبح دم شہر کی سڑکوں پہ بکھر جاتے ہیں


شاخ گل کتنی ہی فصلوں کے اٹھاتی ہے عذاب
رنگ و بو پھول میں یوں ہی نہیں بھر جاتے ہیں


حادثے رہتے ہیں یوں عمر رواں کے ہم راہ
جیسے امواج کے ہم راہ بھنور جاتے ہیں


اجنبی شہر میں شاید کوئی اپنا مل جائے
جس جگہ بھیڑ نظر آئے ٹھہر جاتے ہیں


جب بھی مر جاتا ہے مفلس کسی کنبے کا کفیل
ایک کے ساتھ کئی اور بھی مر جاتے ہیں


مجھ کو معلوم ہے جب میں نہیں ہوتا موجود
خود بخود آپ کے گیسو بھی سنور جاتے ہیں