دامن شب میں ستارے چمکے
دامن شب میں ستارے چمکے
ناامیدی میں سہارے چمکے
جو کبھی باعث رسوائی تھے
اب وہی داغ ہمارے چمکے
ایک خورشید ڈھلا سینے میں
سر مژگاں کئی تارے چمکے
بحر کس شان سے پایاب ہوا
ہم جو ڈوبے تو کنارے چمکے
مہر ابھرا تو سبھی روشن تھے
کون سے آپ ہی نیارے چمکے
عاشقی در بدری نغمہ گری
ہم سے یہ سارے ادارے چمکے