بدل بدل کے وہی صورتیں دکھائے کہیں
بدل بدل کے وہی صورتیں دکھائے کہیں
یہ عہد نو بھی پرانے ہی دکھ نہ لائے کہیں
پھر اس کے حسن کی رنگت نہ ہو بہاروں میں
پھر اس کی زلف کی خوشبو ہوا نہ لائے کہیں
نگاہ رک گئی کس پر کہ پھر ہٹی ہی نہیں
قدم اکھڑ گئے ایسے کہ جم نہ پائے کہیں
بہت ہے رند خرابات آج کل ہشیار
کہ مے پئے یہ کہیں اور لڑکھڑائے کہیں
یہ آرزو بھی کہ چلاؤں پوری قوت سے
یہ خوف بھی کہ صدا کوئی سن نہ پائے کہیں
عجیب کھیل منورؔ یہ ہم نے دیکھا ہے
کہیں ہے دھوپ فقط اور صرف سائے کہیں