ہر تماشا چند لمحوں میں پرانا ہو گیا
ہر تماشا چند لمحوں میں پرانا ہو گیا
رفتہ رفتہ بند پھر اک اک دریچہ ہو گیا
جانے کس جانب سے سورج کی کرن مجھ پر پڑی
میرا سایا میرے قامت سے بھی اونچا ہو گیا
آگہی اور عاشقی دیوانگی اور مے کشی
تجربہ بائیس برسوں میں بہت سا ہو گیا
یہ سزائے شوق ہے یا قیمت خود آگہی
دل ہوا پر نور تو بے نور چہرہ ہو گیا
شعر کا فن بھی منورؔ اپنے کام آیا نہیں
ہم ہوئے فن کار تو یہ فن ہی رسوا ہو گیا