Shakeel Nashtar

شکیل نشتر

شکیل نشتر کی غزل

    واقف حال نسیم سحری ہے کہ نہیں

    واقف حال نسیم سحری ہے کہ نہیں گود پھولوں سے گلستاں کی بھری ہے کہ نہیں بعد میں سوچنا کس در سے ہوئے تھے داخل پہلے دیکھو یہ وہی بارہ دری ہے کہ نہیں قافلہ لٹ بھی چکا راہنما سوچ میں ہے مجھ پہ الزام غلط راہبری ہے کہ نہیں میرا دل توڑنے والو یہ بتاؤ دنیا آج بھی کار گہہ شیشہ گری ہے کہ ...

    مزید پڑھیے

    دیکھنے والوں نے کچھ دیکھا بھی ہے

    دیکھنے والوں نے کچھ دیکھا بھی ہے چشم نرگس دیدۂ بینا بھی ہے ان دنوں عالم ہے کچھ دل کا عجب حشر بھی برپا ہے سناٹا بھی ہے اک ہجوم دوستاں ہے اور میں دہر میں مجھ سا کوئی تنہا بھی ہے ہر طرف تعمیر دیواریں ہوئیں سوچتا یہ ہوں کہیں سایا بھی ہے کیوں نہ ہو فکر و خیال تشنگاں بند مجھ میں پیاس ...

    مزید پڑھیے

    سنا ہے آج صبا مشک بار آئی ہے

    سنا ہے آج صبا مشک بار آئی ہے بہت دنوں میں شب انتظار آئی ہے کلی کلی کے تبسم سے خندۂ گل تک فضا چمن کی کسے سازگار آئی ہے یہ کیا کہ خندۂ گل کا طلسم ٹوٹ گیا ہنسی لبوں پہ جو بے اختیار آئی ہے چٹک رہی ہیں یہ کس کے خیال کی کلیاں کہ دھڑکنوں کی صدا بار بار آئی ہے نگاہ شوق اگر جلوہ گاہ تک ...

    مزید پڑھیے

    ڈر رہا ہوں کہ ڈر کی بات بھی ہے

    ڈر رہا ہوں کہ ڈر کی بات بھی ہے بے رخی وجہ التفات بھی ہے دوستی ان دنوں خلوص کے ساتھ وجہ ترک تعلقات بھی ہے تیرا غم حاصل خوشی ہی نہیں تیرا غم حاصل حیات بھی ہے ہر نفس اک تصور غم نو کوئی حد تصورات بھی ہے ہنس کے پوچھا کلی سے اک گل نے مسکرانے کی کوئی بات بھی ہے دوستوں سے گریز نشترؔ ...

    مزید پڑھیے

    سکوں کسی کو میسر نہیں چمن میں ابھی

    سکوں کسی کو میسر نہیں چمن میں ابھی بہت سے خار ہیں پھولوں کے پیرہن میں ابھی نسیم صبح نے گل تو بہت کھلائے ہیں مگر بہار نہ آئی مرے چمن میں ابھی مجھے یہ ناز کہ اشکوں کو پی رہا ہوں میں انہیں یہ غم کی اندھیرا ہے انجمن میں ابھی چمن پہ ہے یہ کرم بوئے غنچہ و گل کا کہ ارتباط ہے باقی لب و ...

    مزید پڑھیے

    مجھے پڑھو تو پڑھو میری داستاں سے الگ

    مجھے پڑھو تو پڑھو میری داستاں سے الگ میں گلستاں میں بھی یوں ہوں کہ گلستاں سے الگ ہو کوئی وصل کا لمحہ کہ ہجر کا عالم حجاب شوق ہوا ہے نہ درمیاں سے الگ نقوش سجدہ زمانہ کہاں تلاش کرے مری جبیں سے جدا تیرے آستاں سے الگ یہ جاں نواز بہت ہے وہ کم سے کم جاں سوز بہار سے ہے شکایت جدا خزاں سے ...

    مزید پڑھیے

    نئی حیات نیا ساز دے رہا ہوں میں

    نئی حیات نیا ساز دے رہا ہوں میں دل شکستہ کو آواز دے رہا ہوں میں ہے فخر یہ کہ مری زندگی ہے عجز و نیاز غرور یہ کہ تمہیں ناز دے رہا ہوں میں تری حسین جفاؤں سے لے کے درس وفا جنوں کو کچھ نئے انداز دے رہا ہوں میں یہ کس مقام پہ لے آئی بے خودی کہ تمہیں خود اپنے نام سے آواز دے رہا ہوں ...

    مزید پڑھیے

    اک شخص بھری بزم میں تنہا نظر آیا

    اک شخص بھری بزم میں تنہا نظر آیا اپنا تو نہیں تھا مگر اپنا نظر آیا ہم تشنہ لبوں نے کبھی جا کر لب دریا دریا کو بھی دیکھا ہے تو پیاسا نظر آیا شبنم‌ زدہ پھولوں کے سوا صحن چمن میں اے آبلہ پایان جنوں کیا نظر آیا اے گھومتی‌‌ پھرتی ہوئی لاشو یہ بتاؤ انساں کوئی اس شہر میں زندہ نظر ...

    مزید پڑھیے

    بجھے بجھے ہوئے داغ جگر کی بات نہ کر

    بجھے بجھے ہوئے داغ جگر کی بات نہ کر بھڑک اٹھے گا یہ شعلہ سحر کی بات نہ کر بس ایک بار محبت سے دیکھنے والے یہ وہ کرم ہے کہ بار دگر کی بات نہ کر ترس نہ جائیں کہیں رنگ و بو کو اہل چمن گلوں کو دیکھ کے زخم جگر کی بات نہ کر متاع درد بڑھا اور مسکرائے جا شب فراق نمود سحر کی بات نہ کر نیا ...

    مزید پڑھیے

    درد ہی درد تھی منت کش درماں تو نہ تھی

    درد ہی درد تھی منت کش درماں تو نہ تھی زندگی خواب تو تھی خواب پریشاں تو نہ تھی جب ہوا لے کے چلی تھی ترے کوچے کی طرف مری جانب نگراں گردش دوراں تو نہ تھی زندگی شہر غزالاں میں بگولوں کی طرح مجھ سے پہلے مری آواز پہ رقصاں تو نہ تھی ہر نفس ساتھ رہی ہے مرے سائے کی طرح آپ کی یاد مری عمر ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 4