اک شخص بھری بزم میں تنہا نظر آیا

اک شخص بھری بزم میں تنہا نظر آیا
اپنا تو نہیں تھا مگر اپنا نظر آیا


ہم تشنہ لبوں نے کبھی جا کر لب دریا
دریا کو بھی دیکھا ہے تو پیاسا نظر آیا


شبنم‌ زدہ پھولوں کے سوا صحن چمن میں
اے آبلہ پایان جنوں کیا نظر آیا


اے گھومتی‌‌ پھرتی ہوئی لاشو یہ بتاؤ
انساں کوئی اس شہر میں زندہ نظر آیا


دیکھا کہ وہی صورت دیوار ہے نشترؔ
جس کو کسی دیوار کا سایا نظر آیا