اسیر وعدۂ بے اعتبار بیٹھے ہیں
اسیر وعدۂ بے اعتبار بیٹھے ہیں جہاں پہ چھوڑ گئی تھی بہار بیٹھے ہیں نسیم صبح بہاری ادھر نہ آ کہ ادھر فریب خوردۂ فصل بہار بیٹھے ہیں بگولے رقص میں پھر آ گئے ہیں اور ہم لوگ ابھی تو جھاڑ کے گرد و غبار بیٹھے ہیں ہے لب پہ آہ فلک پر نگاہ تنگ زمیں وطن نصیب غریب الدیار بیٹھے ہیں کبھی تو ...