Shakeel Nashtar

شکیل نشتر

شکیل نشتر کی غزل

    اسیر وعدۂ بے اعتبار بیٹھے ہیں

    اسیر وعدۂ بے اعتبار بیٹھے ہیں جہاں پہ چھوڑ گئی تھی بہار بیٹھے ہیں نسیم‌ صبح بہاری ادھر نہ آ کہ ادھر فریب خوردۂ فصل بہار بیٹھے ہیں بگولے رقص میں پھر آ گئے ہیں اور ہم لوگ ابھی تو جھاڑ کے گرد و غبار بیٹھے ہیں ہے لب پہ آہ فلک پر نگاہ تنگ زمیں وطن نصیب غریب الدیار بیٹھے ہیں کبھی تو ...

    مزید پڑھیے

    گلشن میں کوئی چاک گریباں بھی نہیں ہے

    گلشن میں کوئی چاک گریباں بھی نہیں ہے اور فصل بہار آنے کا امکاں بھی نہیں ہے ہم نقد دل و جاں بھی لٹا آئے سر بزم اور آپ پہ اس کا کوئی احساں بھی نہیں ہے کس منہ سے کرے تیرے تغافل کی شکایت جس پر کرم گردش دوراں بھی نہیں ہے پوچھے جو کوئی حال تو کیا حال بتائے وہ شخص جو کچھ دن سے پریشاں بھی ...

    مزید پڑھیے

    جا پہنچتے ہیں سر دار قضا سے پہلے

    جا پہنچتے ہیں سر دار قضا سے پہلے کتنے منصور انا الحق کی صدا سے پہلے حسن تنظیم کو کہتے ہیں ترستی ہی رہی کہکشاں میرے نقوش کف پا سے پہلے سوچتا ہوں کہ کبھی میں نے سنی ہے کہ نہیں کوئی آواز دل نغمہ سرا سے پہلے تھا غم زیست مگر کب تھا شعور غم زیست اہل دل اہل نظر اہل وفا سے پہلے قیمت دار ...

    مزید پڑھیے

    غلط کہ سعئ جنوں خیز رائیگاں نہ گئی

    غلط کہ سعئ جنوں خیز رائیگاں نہ گئی بہار آئی چمن میں مگر خزاں نہ گئی دل و نظر کا یہی فاصلہ حیات بھی ہے پہنچ گیا ہے جہاں دل نظر وہاں نہ گئی چٹک کے غنچہ تو خاموش ہو گیا لیکن شکست دل کی صدا تھی کہاں کہاں نہ گئی تھے رفتگاں میں سبھی رونق جہاں کا سبب کسی کے ساتھ مگر رونق جہاں نہ ...

    مزید پڑھیے

    کسے سکون ملے زندگی کے پہلو میں

    کسے سکون ملے زندگی کے پہلو میں رواں ہے غم کا سمندر خوشی کے پہلو میں سمندروں سے کہو میرا ظرف بھی دیکھیں کہ ایک عمر سے ہوں تشنگی کے پہلو میں سمجھ رہا ہوں جسے بے قراریوں کا سبب قرار آئے تو شاید اسی کے پہلو میں یہ مہر و ماہ وہ دنیا تلاش کرتے ہیں کہ روشنی ہو جہاں روشنی کے پہلو ...

    مزید پڑھیے

    کوئی ملا تھا سر راہ اک زمانہ ہوا

    کوئی ملا تھا سر راہ اک زمانہ ہوا پھر اس کے بعد کوئی ایسا سانحہ نہ ہوا کھلے جو پھول کرے احترام‌ زخم جگر یہ پھول وہ ہے جو منت کش صبا نہ ہوا ابھی سے ترک تعلق کا کیوں خیال آیا ابھی تو زیست کا مفہوم بھی ادا نہ ہوا مری صدا کہ رہی ہے صدائے بے آواز مگر یہ شہر نوا ہمرہ نوا نہ ہوا رہ وفا ...

    مزید پڑھیے

    وہی انداز دنیا ہے ابھی تک

    وہی انداز دنیا ہے ابھی تک غم امروز و فردا ہے ابھی تک یہ دور ابتلا ہے اس میں انساں یہ کیا کم ہے کہ زندہ ہے ابھی تک اب آگے دیکھیے کیا فکر ہوگی یہیں تک ہم نے سوچا ہے ابھی تک ہوئی مدت ملے تھے لمحہ بھر کو وہی لمحہ نہ گزرا ہے ابھی تک اسی کو ڈھونڈھتی ہے آنکھ نشترؔ وہی دل کا تقاضہ ہے ...

    مزید پڑھیے

    روشنی دل میں نظر آئی ہے

    روشنی دل میں نظر آئی ہے پھر کوئی چوٹ ابھر آئی ہے بن کے تحریر صبا درس جنوں ورق گل پہ اتر آئی ہے آئنہ دیکھنے والے تجھ کو کس کی تصویر نظر آئی ہے دل کے زخموں کا یہ عالم جیسے کہکشاں دل میں اتر آئی ہے شکریہ دشت کی ویرانی کا مجھ سے ملنے مرے گھر آئی ہے آج خوش یوں بھی ہوں نشترؔ کہ ...

    مزید پڑھیے

    حسن تدبیر بھی تھا خوبیٔ تقدیر بھی تھا

    حسن تدبیر بھی تھا خوبیٔ تقدیر بھی تھا تو نے دیکھا ہی نہیں میں تری تصویر بھی تھا عمر بھر اہل محبت کو پتہ ہی نہ چلا وقت اس زخم جگر کے لئے زنجیر بھی تھا کیا ہوا اشک کہ جو زینت مژگاں ہو کر حاصل درد بھی تھا درد کی تفسیر بھی تھا تھی زباں بند تری بزم میں لیکن کچھ یوں دل دھڑکتا تھا کہ اک ...

    مزید پڑھیے

    دل پہ جور و ستم گراں نہ ہوئے

    دل پہ جور و ستم گراں نہ ہوئے کیسے کہہ دوں وہ مہرباں نہ ہوئے ہائے یادوں کے وہ نقوش حسیں مٹ گئے اور بے نشاں نہ ہوئے دیکھنے والے صورت شبنم صورت بحر بیکراں نہ ہوئے سوچتا ہوں وہ اشک کیا ہوں گے جو ابھی زیب داستاں نہ ہوئے غم تو یہ ہے کہ گلستاں میں سب پھول کانٹوں کے درمیاں نہ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 4