نئی حیات نیا ساز دے رہا ہوں میں

نئی حیات نیا ساز دے رہا ہوں میں
دل شکستہ کو آواز دے رہا ہوں میں


ہے فخر یہ کہ مری زندگی ہے عجز و نیاز
غرور یہ کہ تمہیں ناز دے رہا ہوں میں


تری حسین جفاؤں سے لے کے درس وفا
جنوں کو کچھ نئے انداز دے رہا ہوں میں


یہ کس مقام پہ لے آئی بے خودی کہ تمہیں
خود اپنے نام سے آواز دے رہا ہوں میں


کٹے ہوئے جو پر و بال ہیں انہیں نشترؔ
نظر سے قوت پرواز دے رہا ہوں میں