ڈر رہا ہوں کہ ڈر کی بات بھی ہے

ڈر رہا ہوں کہ ڈر کی بات بھی ہے
بے رخی وجہ التفات بھی ہے


دوستی ان دنوں خلوص کے ساتھ
وجہ ترک تعلقات بھی ہے


تیرا غم حاصل خوشی ہی نہیں
تیرا غم حاصل حیات بھی ہے


ہر نفس اک تصور غم نو
کوئی حد تصورات بھی ہے


ہنس کے پوچھا کلی سے اک گل نے
مسکرانے کی کوئی بات بھی ہے


دوستوں سے گریز نشترؔ کا
سانحہ بھی ہے واردات بھی ہے