Shakeel Nashtar

شکیل نشتر

شکیل نشتر کی غزل

    ہو کے وارفتہ کہیں خود کو پکارا تو نہیں

    ہو کے وارفتہ کہیں خود کو پکارا تو نہیں نام جو لب پہ ہمارے ہے تمہارا تو نہیں عالم تیرہ شبی مجھ کو گوارا تو نہیں میں کہ اشک سر مژگاں ہوں ستارا تو نہیں وقت کہتے ہیں کہ ہر زخم کو بھر دیتا ہے وقت نے میرا کوئی قرض اتارا تو نہیں روشنی بن کے ابھرنا نہیں آساں پھر بھی ڈوب کیا جاؤں کہ میں ...

    مزید پڑھیے

    فصل گل آئی مگر چاک گریباں نہ ہوئے

    فصل گل آئی مگر چاک گریباں نہ ہوئے لوگ تھے اتنے پریشاں کہ پریشاں نہ ہوئے بس یوں ہی بڑھتی رہی بڑھتی رہی تاریکی اور کچھ صبح کے آثار نمایاں نہ ہوئے ہم بھی آوارہ ہی پھرتے ہیں صبا کی مانند ہم بھی منت‌‌ کش ارباب گلستاں نہ ہوئے تیری آواز کسی نے نہ سنی ہو جیسے ہم تری بزم میں جس دن سے ...

    مزید پڑھیے

    دست وحشت میں گریبان سا ہوں

    دست وحشت میں گریبان سا ہوں کچھ دنوں سے میں پریشان سا ہوں کہہ رہا ہے یہ ترا حسن و جمال غالبؔ و میرؔ کا دیوان سا ہوں اور کچھ دیر مرے ساتھ رہو اور کچھ دیر کا مہمان سا ہوں روح کہتی ہے کہ الزام نہ دے جسم کہتا ہے کہ بے جان سا ہوں صورتیں دیکھ رہا ہوں نشترؔ مثل آئینہ ہوں حیران سا ہوں

    مزید پڑھیے

    کیا یہ فریب گردش شمس و قمر نہیں

    کیا یہ فریب گردش شمس و قمر نہیں اب شب بھی شب نہیں ہے سحر بھی سحر نہیں آئینہ کہہ رہا ہے کہ تنہا نہیں ہوں میں حیرت کی بات یہ کہ کوئی ہم سفر نہیں کہتے ہیں دیدہ ور کہ بیاباں کہو اسے وہ گلستاں کہ جس میں کوئی دیدہ ور نہیں صورت جو دیکھیے تو ہر اک میر کارواں منزل سے پوچھئے تو کوئی راہبر ...

    مزید پڑھیے

    نقوش عہد گذشتہ ابھارنے کے لئے

    نقوش عہد گذشتہ ابھارنے کے لئے میں کھیلتا ہوں ہر اک کھیل ہارنے کے لئے ترا حسین تصور ہی کم نہیں اے دوست غم حیات کے گیسو سنوارنے کے لئے سمیٹ لے غم کونین اپنے دامن میں جنون عشق نیا روپ دھارنے کے لئے تمام عمر مری زندگی رہی بیتاب سکون کا کوئی لمحہ گزارنے کے لئے جگر کے زخموں پہ کیا ...

    مزید پڑھیے

    زندگی ایسی سزا ہے کہ سزا بھی تو نہیں

    زندگی ایسی سزا ہے کہ سزا بھی تو نہیں دل دھڑکتا ہے دھڑکنے کی صدا بھی تو نہیں کیا خد و خال تھے کچھ یاد رہا بھی تو نہیں ایسا بچھڑا کوئی مدت سے ملا بھی تو نہیں آہٹیں کیا ترے قدموں کی سنائی دیں گی اب کہ پہلو میں دل نغمہ سرا بھی تو نہیں رہنوردان رہ عشق بھٹک ہی نہ سکیں اتنے تابندہ نقوش ...

    مزید پڑھیے

    ہم چل دیے تو راستے ہموار ہو گئے

    ہم چل دیے تو راستے ہموار ہو گئے اور رک گئے تو سایۂ دیوار ہو گئے اب کیا پئیں شراب کہ ساقی بقدر ظرف تجھ سے نظر ملا کے گنہ گار ہو گئے دور خزاں میں جن کو تھا دیوانگی کا شوق فصل بہار آتے ہی ہوشیار ہو گئے اہل زمیں کو دیکھ کے کچھ ساکنان عرش حیراں ہوئے تو نقش بہ دیوار ہو گئے تا عمر ...

    مزید پڑھیے

    تمام عمر کیا ہم نے انتظار سحر

    تمام عمر کیا ہم نے انتظار سحر سحر ہوئی بھی تو آیا نہ اعتبار سحر بھٹک رہا ہے کہاں کاروان دیدہ و دل نہ یہ دیار شب غم نہ یہ دیار سحر سنبھل سنبھل کے چلے کاروان لالہ و گل یہ رہ گزار سحر ہے یہ رہ گزار سحر کسی کے حسن تبسم کی اک کرن چھو کر گلوں کو بخش دیا ہم نے اختیار سحر ترا خیال نہ آئے ...

    مزید پڑھیے

    منزل پہ پہنچتے ہی ستم ٹوٹ رہے ہیں

    منزل پہ پہنچتے ہی ستم ٹوٹ رہے ہیں اے ضبط فغاں دیکھ کہ ہم ٹوٹ رہے ہیں کیوں زیست کو الفاظ و معانی نہیں ملتے کیوں صفحۂ ہستی پہ قلم ٹوٹ رہے ہیں اس دور پر آشوب میں اب اپنے ہی ہاتھوں اپنے ہی تراشیدہ صنم ٹوٹ رہے ہیں کر دیکھیں کچھ اپنی ہی وفاؤں میں اضافہ ہم ان کی جفاؤں سے تو کم ٹوٹ رہے ...

    مزید پڑھیے

    کرنی ہے راہ زیست جو ہموار دوستو

    کرنی ہے راہ زیست جو ہموار دوستو کیوں ڈھونڈتے ہو سایۂ دیوار دوستو ارزاں کچھ اتنی ہو گئی جنس وفا کہ اب ملتا نہیں ہے کوئی خریدار دوستو مدت ہوئی متاع دل و جاں لٹے ہوئے اب بھی وہی ہے گرمئ بازار دوستو خون جگر سے لکھتے چلو نقش پا کے ساتھ کیا کہہ رہی ہے وقت کی رفتار دوستو نشترؔ بتائے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 4