سکوں کسی کو میسر نہیں چمن میں ابھی
سکوں کسی کو میسر نہیں چمن میں ابھی
بہت سے خار ہیں پھولوں کے پیرہن میں ابھی
نسیم صبح نے گل تو بہت کھلائے ہیں
مگر بہار نہ آئی مرے چمن میں ابھی
مجھے یہ ناز کہ اشکوں کو پی رہا ہوں میں
انہیں یہ غم کی اندھیرا ہے انجمن میں ابھی
چمن پہ ہے یہ کرم بوئے غنچہ و گل کا
کہ ارتباط ہے باقی لب و دہن میں ابھی
یہ کس خیال کے آتے ہی چھٹ گئی نشترؔ
جو تیرگی تھی خیالوں کی انجمن میں ابھی