دیکھنے والوں نے کچھ دیکھا بھی ہے
دیکھنے والوں نے کچھ دیکھا بھی ہے
چشم نرگس دیدۂ بینا بھی ہے
ان دنوں عالم ہے کچھ دل کا عجب
حشر بھی برپا ہے سناٹا بھی ہے
اک ہجوم دوستاں ہے اور میں
دہر میں مجھ سا کوئی تنہا بھی ہے
ہر طرف تعمیر دیواریں ہوئیں
سوچتا یہ ہوں کہیں سایا بھی ہے
کیوں نہ ہو فکر و خیال تشنگاں
بند مجھ میں پیاس کا دریا بھی ہے
بھول جائے گا زمانہ کیا ہمیں
ہم نے جو دیکھا ہے وہ لکھا بھی ہے
وہ بھی نشترؔ ہو گئے ہیں اجنبی
وہ کہ جن سے درد کا رشتہ بھی ہے