بجھے بجھے ہوئے داغ جگر کی بات نہ کر
بجھے بجھے ہوئے داغ جگر کی بات نہ کر
بھڑک اٹھے گا یہ شعلہ سحر کی بات نہ کر
بس ایک بار محبت سے دیکھنے والے
یہ وہ کرم ہے کہ بار دگر کی بات نہ کر
ترس نہ جائیں کہیں رنگ و بو کو اہل چمن
گلوں کو دیکھ کے زخم جگر کی بات نہ کر
متاع درد بڑھا اور مسکرائے جا
شب فراق نمود سحر کی بات نہ کر
نیا نہیں ہے یہ ہنگامہ اہل دل کے لئے
سکوت آئینۂ خود نگر کی بات نہ کر
کہاں کہاں سے گزرنا ہے بے نیازانہ
نظر سے دیکھ شعور نظر کی بات نہ کر
یہ پھول ہیں مرے نشترؔ جگر کے داغ نہیں
فریب خوردۂ شبنم گہر کی بات نہ کر