واقف حال نسیم سحری ہے کہ نہیں
واقف حال نسیم سحری ہے کہ نہیں
گود پھولوں سے گلستاں کی بھری ہے کہ نہیں
بعد میں سوچنا کس در سے ہوئے تھے داخل
پہلے دیکھو یہ وہی بارہ دری ہے کہ نہیں
قافلہ لٹ بھی چکا راہنما سوچ میں ہے
مجھ پہ الزام غلط راہبری ہے کہ نہیں
میرا دل توڑنے والو یہ بتاؤ دنیا
آج بھی کار گہہ شیشہ گری ہے کہ نہیں
صرف یہ دیکھنے آتے ہیں ہوا کے جھونکے
شاخ ہر زخم تمنا کی ہری ہے کہ نہیں
وہ چراغ شب آخر ہوں کہ اب سوچتا ہوں
میرے دامن میں کوئی خوش خبری ہے کہ نہیں
نشترؔ آزاد ہیں آزادی کا یہ دور مگر
دور آزادئ بے بال و پری ہے کہ نہیں