Muzaffar Shikoh

مظفر شکوہ

مظفر شکوہ کی غزل

    ہاتھ کی جنبش سے مے چھلکی پیمانے بدنام ہوئے

    ہاتھ کی جنبش سے مے چھلکی پیمانے بدنام ہوئے خود پی پی کر دنیا بہکی میخانے بدنام ہوئے کوچۂ الفت میں جو آیا کھو کے نمود و نام گیا دیوانے دیوانے ٹھہرے فرزانے بدنام ہوئے ہوش و خرد کے چرچوں میں لکھے کا بھرم بھی قائم تھا دیدہ و دل کی باتوں میں اب افسانے بدنام ہوئے شب بیتے جب شمع ...

    مزید پڑھیے

    یاد ایامے کہ دل رکھتے تھے جاں رکھتے تھے ہم

    یاد ایامے کہ دل رکھتے تھے جاں رکھتے تھے ہم شکوہ سنجی کے لئے منہ میں زباں رکھتے تھے ہم ساز غم رکھتے تھے ہم سوز نہاں رکھتے تھے ہم سر میں سودا دل میں نشتر سا نہاں رکھتے تھے ہم گرد باد آساز میں بر آسماں رکھتے تھے ہم اپنے قدموں کے تلے سارا جہاں رکھتے تھے ہم حسرت‌‌ آشفتگی شوق زیاں ...

    مزید پڑھیے

    سودا تمہارے عشق کا جس دن سے سر میں ہے

    سودا تمہارے عشق کا جس دن سے سر میں ہے سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے مرنے کی آرزو بھی نکل جائے گی کبھی ایسا کہاں کہ بیر دعا و اثر میں ہے جوش جنوں کو کس لئے صحرا کی ہے تلاش سر پھوڑنے کا لطف تو دیوار و در میں ہے ہر حلقۂ خیال ہے تصویر روئے دوست افسون انتظار یہ کیسا نظر میں ہے اے ...

    مزید پڑھیے

    وجہ‌‌ رنگینئ حیات گئی

    وجہ‌‌ رنگینئ حیات گئی تم گئے ساری کائنات گئی موسم گل ہے فصل جامہ دری احتیاج تکلفات گئی جب سے لذت کش جفا ہے دل حاجت چشم التفات گئی صبح تک منتظر رہے انجم تم نہ آئے تمام رات گئی بڑھ گیا اور رنگ استغنا درد دل کہہ کے اپنی بات گئی ان کی آنکھوں سے ڈھل پڑے آنسو مایۂ حسن کی زکوٰۃ ...

    مزید پڑھیے

    کوئی نہیں کہ جسے آشنائے راز کریں

    کوئی نہیں کہ جسے آشنائے راز کریں تو کیوں نہ پھر غم دل ہی سے ساز باز کریں بنا کے ان کو بھی خوگر نیاز پیہم کا وہ دن بھی آئے کہ ہم بھی بتوں سے ناز کریں حساب ہو چکا کوتاہ دستیوں کا تو اب خیال سلسلۂ گیسوئے دراز کریں اگر شراب میں مستی بھی ہے خمار بھی ہے تو کیوں نہ آرزوئے چشم نیم باز ...

    مزید پڑھیے

    عید ہے اور ساقئ نو خیز میخانے میں ہے

    عید ہے اور ساقئ نو خیز میخانے میں ہے آج پینے کا مزہ پی کر بہک جانے میں ہے کیف و مستی جو تری آنکھوں کے خم خانے میں ہے وہ تری مینا میں ہے ساقی نہ پیمانے میں ہے ہے غم دیوار اس کو اور نہ فکر پیرہن کیا فراغت تیرے دیوانے کو ویرانے میں ہے گر جلانے میں جگر کا خوں ہے لطف انتظار ہجر کی لذت ...

    مزید پڑھیے

    رہ خرد میں جہاں سر ہے درد سر بھی ہے

    رہ خرد میں جہاں سر ہے درد سر بھی ہے کہ گو مگو بھی اگر بھی ہے اور مگر بھی ہے فقیہ شہر معزز بھی معتبر بھی ہے مگر مراسم الفت سے بے خبر بھی ہے تری نظر کہ نظر بھی نہیں نظر بھی ہے جسے ہماری خبر بھی نہیں خبر بھی ہے یہاں کی قید سے گھبرا رہا ہے دیوانہ کہ اس دیار میں دیوار بھی ہے در بھی ...

    مزید پڑھیے

    آج پھر بند و سلاسل کا خیال آیا ہے

    آج پھر بند و سلاسل کا خیال آیا ہے زلف پر پیچ کا اور دل کا خیال آیا ہے پھر بگولے ہیں رواں بہر‌‌ قدم بوسئ شوق قیس کو لیلئ محمل کا خیال آیا ہے پھر مہ گنبد گرداں سے لگی ہے بازی ہم کو اپنے مہ کامل کا خیال آیا ہے آج پھر آنکھ سے ٹپکا ہے کوئی قطرۂ خوں بعد مدت ہمیں پھر دل کا خیال آیا ...

    مزید پڑھیے

    جو دم میں دم ہے تو ساقی کی جستجو ہی سہی

    جو دم میں دم ہے تو ساقی کی جستجو ہی سہی نہیں شراب تو سودائے آرزو ہی سہی جو باندھنا ہے تصور ہی اپنی آنکھوں میں تو پھر پیالہ و ساغر ہی کیوں سبو ہی سہی صلوٰۃ شرع نہیں جس کا اہتمام کریں نماز عشق ہے اے دل تو بے وضو ہی سہی جنوں میں چاک ہے دامن تو فکر سوزن کیا جو بن گیا ہے گریباں تو بے ...

    مزید پڑھیے

    محبت اک غم نا اختتام ہوتی ہے

    محبت اک غم نا اختتام ہوتی ہے نہ صبح ہوتی ہے اس کی نہ شام ہوتی ہے مئے شباب و غرور شباب کیا کہنا بس ایک گھونٹ میں ترکی تمام ہوتی ہے جو راہ عقل و خرد کے لئے ہے لا محدود جنون عشق میں بس ایک گام ہوتی ہے

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2