عید ہے اور ساقئ نو خیز میخانے میں ہے

عید ہے اور ساقئ نو خیز میخانے میں ہے
آج پینے کا مزہ پی کر بہک جانے میں ہے


کیف و مستی جو تری آنکھوں کے خم خانے میں ہے
وہ تری مینا میں ہے ساقی نہ پیمانے میں ہے


ہے غم دیوار اس کو اور نہ فکر پیرہن
کیا فراغت تیرے دیوانے کو ویرانے میں ہے


گر جلانے میں جگر کا خوں ہے لطف انتظار
ہجر کی لذت بھی مر مر کے جیے جانے میں ہے


اس کی نظریں بھانپ لیتی ہیں تجھے ہر رنگ میں
کس بلا کی ہوشیاری تیرے دیوانے میں ہے


اور الجھاتے چلے جاتے ہو میرے صبح و شام
جب سے تم کو یہ شغف گیسو کے سلجھانے میں ہے


اب بلا سے ہو چراغ دیر یا شمع حرم
قصد جل کر خاک ہو جانے کا پروانے میں ہے