ہاتھ کی جنبش سے مے چھلکی پیمانے بدنام ہوئے

ہاتھ کی جنبش سے مے چھلکی پیمانے بدنام ہوئے
خود پی پی کر دنیا بہکی میخانے بدنام ہوئے


کوچۂ الفت میں جو آیا کھو کے نمود و نام گیا
دیوانے دیوانے ٹھہرے فرزانے بدنام ہوئے


ہوش و خرد کے چرچوں میں لکھے کا بھرم بھی قائم تھا
دیدہ و دل کی باتوں میں اب افسانے بدنام ہوئے


شب بیتے جب شمع فروزاں کی ضو کاری ختم ہوئی
خاک کے دھبوں سے شیشے پر پروانے بدنام ہوئے


کچھ ہر بد ظن کچھ وہ بد ظن دوشی اب کس کو ٹھہرائیں
الٹی سیدھی بات کی پچ پر یارانے بدنام ہوئے


بادیہ گردی آبلہ پائی قسمت تھی دیوانوں کی
کس باعث اے وحشت دل پھر ویرانے بدنام ہوئے


دور نشیلی آنکھوں کا تو روکے سے بھی رک نہ سکا
لیکن چشم کیف آگیں کے مستانے بدنام ہوئے