آج پھر بند و سلاسل کا خیال آیا ہے
آج پھر بند و سلاسل کا خیال آیا ہے
زلف پر پیچ کا اور دل کا خیال آیا ہے
پھر بگولے ہیں رواں بہر قدم بوسئ شوق
قیس کو لیلئ محمل کا خیال آیا ہے
پھر مہ گنبد گرداں سے لگی ہے بازی
ہم کو اپنے مہ کامل کا خیال آیا ہے
آج پھر آنکھ سے ٹپکا ہے کوئی قطرۂ خوں
بعد مدت ہمیں پھر دل کا خیال آیا ہے
کارواں شوق کا ہے پیک نظر سے آگے
دور سے قربت منزل کا خیال آیا ہے
دل کو اس بت سے ہے پھر اجر وفا کی امید
سعئ بے سود میں حاصل کا خیال آیا ہے
باندھ کر دشنہ و خنجر جو نکل آئے ہو
آج کیا پھر کسی بسمل کا خیال آیا ہے