سودا تمہارے عشق کا جس دن سے سر میں ہے

سودا تمہارے عشق کا جس دن سے سر میں ہے
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے


مرنے کی آرزو بھی نکل جائے گی کبھی
ایسا کہاں کہ بیر دعا و اثر میں ہے


جوش جنوں کو کس لئے صحرا کی ہے تلاش
سر پھوڑنے کا لطف تو دیوار و در میں ہے


ہر حلقۂ خیال ہے تصویر روئے دوست
افسون انتظار یہ کیسا نظر میں ہے


اے دل طوالت شب فرقت کا کیا گلہ
نادان فرق بھی کوئی شام و سحر میں ہے


اس گردش مدام سے گھبرائیں کس لئے
اک حلقۂ جنوں ہے جو دور قمر میں ہے


سجدوں نے فرق نقش قدم بھی مٹا دیا
ایسا بھی اک مقام تری رہ گزر میں ہے


دل دے چکے ہیں جان بھی اب دے کے دیکھ لیں
اک امتحان یہ بھی ہماری نظر میں ہے


کہہ دو شمیم غنچۂ تازہ شگفتہ سے
بوئے چراغ کشتہ بھی باد سحر میں ہے