جو دم میں دم ہے تو ساقی کی جستجو ہی سہی

جو دم میں دم ہے تو ساقی کی جستجو ہی سہی
نہیں شراب تو سودائے آرزو ہی سہی


جو باندھنا ہے تصور ہی اپنی آنکھوں میں
تو پھر پیالہ و ساغر ہی کیوں سبو ہی سہی


صلوٰۃ شرع نہیں جس کا اہتمام کریں
نماز عشق ہے اے دل تو بے وضو ہی سہی


جنوں میں چاک ہے دامن تو فکر سوزن کیا
جو بن گیا ہے گریباں تو بے رفو ہی سہی


جو ہے شراب حریفان بادہ پیما کو
ہمارے واسطے موضوع گفتگو ہی سہی


اگر خیال میں خوابوں کی گونج باقی ہے
تو آنکھ کھلتے ہی غوغائے ہائے ہو ہی سہی


فسانہ اپنے جنوں کا زباں زباں پہ ہے آج
نہیں جو صحرا بہ صحرا تو کو بہ کو ہی سہی


جفائے‌ ناز اگر ہے ببانگ طبل و دہل
تو دل دکھوں کا گلا سرمہ در گلو ہی سہی