یاد ایامے کہ دل رکھتے تھے جاں رکھتے تھے ہم

یاد ایامے کہ دل رکھتے تھے جاں رکھتے تھے ہم
شکوہ سنجی کے لئے منہ میں زباں رکھتے تھے ہم


ساز غم رکھتے تھے ہم سوز نہاں رکھتے تھے ہم
سر میں سودا دل میں نشتر سا نہاں رکھتے تھے ہم


گرد باد آساز میں بر آسماں رکھتے تھے ہم
اپنے قدموں کے تلے سارا جہاں رکھتے تھے ہم


حسرت‌‌ آشفتگی شوق زیاں رکھتے تھے ہم
روزن امید و بیم پاسباں رکھتے تھے ہم


فرصت‌‌ بے سود سعئ رائیگاں رکھتے تھے ہم
تھا دعاؤں سے پرے وہ آستاں رکھتے تھے ہم


پردۂ جاں میں نگار دل ستاں رکھتے تھے ہم
گلشن دل میں بہار بے خزاں رکھتے تھے ہم


کنج عزلت میں سرشک خوں رواں رکھتے تھے ہم
راز داروں سے بھی اک راز نہاں رکھتے تھے ہم


شب ہمہ شب کھیلتے تھے حلقہ ‌ہاۓ زلف سے
دیدۂ غماز کو ہم داستاں رکھتے تھے ہم


ٹھیس پہنچاتے تھے پندار خودی کو رات دن
پھر بھی دل کی آرزوؤں کو جواں رکھتے تھے ہم


اب نہ وہ دل ہے نہ وہ سودا نہ وہ طغیان شوق
یاد ایامے کہ دل وقف فغاں رکھتے تھے ہم