رہ خرد میں جہاں سر ہے درد سر بھی ہے

رہ خرد میں جہاں سر ہے درد سر بھی ہے
کہ گو مگو بھی اگر بھی ہے اور مگر بھی ہے


فقیہ شہر معزز بھی معتبر بھی ہے
مگر مراسم الفت سے بے خبر بھی ہے


تری نظر کہ نظر بھی نہیں نظر بھی ہے
جسے ہماری خبر بھی نہیں خبر بھی ہے


یہاں کی قید سے گھبرا رہا ہے دیوانہ
کہ اس دیار میں دیوار بھی ہے در بھی ہے


جہان عارض و گیسو عجیب دنیا ہے
کہ جس میں شام بھی ہے ساتھ ہی سحر بھی ہے


یہ دل کی وادیٔ ایمن میں کون آ اترا
کہ جو جمال نہفتہ بھی جلوہ گر بھی ہے


جو راہ اہل خرد کے لئے ہے لا محدود
جنون جذبۂ الفت میں مختصر بھی ہے